کلکتہ ہائیکورٹ جج کو سپریم کورٹ میں شخصی حاضری کی ہدایت

عدلیہ کا کام انجام دینے سے روک دیا گیا ۔ تحقیر عدالت پر وضاحت کی طلبی
نئی دہلی ، 8 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ایک عدیم النظیر حکمنامہ میں سپریم کورٹ نے آج برسرخدمت کلکتہ ہائی کورٹ جج جسٹس سی ایس کرنن سے کہا کہ اس کے روبرو شخصی طور پر حاضر ہوں اور وضاحت کریں کہ کیوں ان کے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی شروع نہ کی جائے اور انھیں فوری اثر کے ساتھ عدالتی اور انتظامی خدمت کی انجام دہی سے روکا نہ جائے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی سربراہی والی سات ججوں کی بنچ نے کہا، ’’جسٹس سی ایس کرنن کو نوٹس جاری کی جائے۔ 13 فبروری کو قابل واپسی ہو۔ شری جسٹس سی ایس کرنن کو فوری طور پر عدلیہ یا انتظامیہ کے ایسے کسی بھی کام کی انجام دہی سے احتراز کرنا چاہئے جو ہوسکتا ہے انھیں تفویض کیا گیا ہو‘‘۔ بنچ نے جس میں جسٹس دیپک مصرا، جسٹس جے چلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایم بی لوکور، جسٹس پی سی گھوش اور جسٹس کوریان جوزف بھی شامل ہیں، جسٹس کرنن کو یہ بھی ہدایت دی کہ اپنے قبضے میں موجود تمام عدالتی اور انتظامی فائلیں فوری رجسٹرار جنرل آف ہائی کورٹ کو واپس کردیں۔ بنچ نے کہا کہ جسٹس کرنن اگلی تاریخ کو بہ نفس نفیس موجود رہتے ہوئے وضاحت پیش کریں۔دریں اثناء بنچ نے فاضل عدالت کی رجسٹری کو یہ یقینی بنانے کی ہدایت دی کہ اس کے حکمنامہ کی نقل آج ہی جسٹس کرنن کو پہنچ جائے، اور اُن کے خلاف تحقیر عدالت کی ازخود نوٹ لیتے ہوئے دائر کردہ عرضی کی مزید سماعت 13 فبروری پر ڈال دی۔شروع میں اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے عوام سے رابطے کی نوعیت کا حوالہ دیا جو مبینہ طور پر جسٹس کرنن سے سرزد ہوئی اور کہا کہ یہ ریمارکس نظام انصاف رسانی کیلئے ’’ہتک آمیز‘‘ اور ’’کم قدری‘‘ والے ہیں۔