باقی ہیں یادگاریں کچھ اس کی زندگی میں
اپنے مریض غم کی، تم دیکھ بھال کرنا
کلبھوشن جادھو کی اہلِ خانہ سے ملاقات
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کے بجائے اگر بعض حکام اور حکومت ہند کے اہم ذمہ داران کلبھوشن جادھو کی ان کی والدہ اور شریک حیات سے سخت نگرانی میں ملاقات کے دوران ہونے والے عوامل پر غلط پروپگنڈہ کے ذریعہ حالات کو کشیدہ کرتے ہیں تو یہ افسوسناک پہلو ہے کیوں کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے کلبھوشن جادھو کو ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کی اجازت خالص انسانیت کی بنیاد پر دی تھی اس اجازت کے بعد طریقہ کار کے مطابق دونوں خواتین کو جادھو سے ملاقات کا انتظام کیا گیا ۔ حکومت ہند نے ملاقات سے قبل پاکستانی حکام کی جانب سے ان کی ماں و بیوی کے ساتھ کئے جانے والے برتاؤ کا سوال اٹھایا ہے کہ جادھو کی والدہ کو اور بیوی کو ان کے منگل سوتر اتارنے کے لیے مجبور کیا گیا اور بندی بھی ہٹاکر چوڑیاں بھی اتار دی گئیں ۔ حکومت ہند کا یہ بھی کہنا ہے کہ جادھو کی والدہ اور ان کی بیوی کا لباس بھی تبدیل کروایا گیا ۔ جادھو کی بیوی کی چپل بھی واپس نہیں کی گئی ۔ وزارت خارجہ پاکستان کے رویہ پر نکتہ چینی کی جارہی ہے کہ اس نے جادھو پر ذہنی دباؤ ڈالا ہے وہ اپنی والدہ اور بیوی سے ملاقات کے دوران ذہنی طور پر دباؤ کا شکار نظر آرہے تھے ۔ کلبھوشن کی اہلیہ چیتنا اور والدہ اونتی جادھو نے جادھو سے ملنے کے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی ۔ ہندوستان کی درخواست پر ہی حکومت پاکستان نے جادھو کو اپنی والدہ اور بیوی سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی ۔ اس طرح کی سفارتی کوششیں ایک بہتر پیشرفت کی جانب اشارہ کرتی ہیں مگر اس سلسلہ میں حکومت ہند کے بعض حکام کے تبصرے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے ۔ جادھو کے تعلق سے حکومت پاکستان کا ادعا ہے کہ انہیں پاکستان میں جاسوسی اور سبوتاج کی کارروائیوں کے الزام اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی ، رابطہ کاری اور انتظام کرنے کی ذمہ داری کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔ انہیں اگرچیکہ پاکستان کی عدالت نے سزائے موت تجویز کی ہے مگر اس سزا کو زیر التواء رکھا جانا بھی حکومت پاکستان کی ایک انسانی ہمدردی کا مظہر ہی سمجھا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے یہ بات قابل نوٹ ہے کہ کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرنے کے جادھو کے اقبالی بیان کو ہندوستان مسترد کرچکا ہے ۔ ہندوستان نے سزائے موت کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا ہے ۔ پاکستان کا ادعا قابل غور ہے کہ اس نے جادھو کے ساتھ انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ وزیر خارجہ پاکستان خواجہ آصف نے اپنی وزارت کے اقدام کو ایک انسانی ہمدردی سے تعبیر کیا اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہندوستان ان کے ملک کی جگہ ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا ۔ پاکستان نے جادھو کی پھانسی کی سزا کو اس وقت تک موخر کر رکھا ہے جب تک ہندوستان کی جانب سے اس سزا کے خلاف دی گئی درخواست پر عالمی عدالت میں قطعی فیصلہ نہیں کیا جاتا ۔ اب جب کہ حکومت ہند کی کوششوں کے بعد جادھو کو ان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت دی گئی اور یہ ملاقات عملی طور پر ایک بہتر فضا میں ہوئی ہے اس کو تلخ بیانی کے ذریعہ باہمی کشیدہ حالات کو مزید نازک بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس طرح کی صورتحال سے ہمیشہ دونوں جانب گریز کیا جاتا رہا ہے تو اس سلسلہ میں امید کی جاتی ہے کہ کسی ایک معمولی مسئلہ کو طول دے کر باہمی کشیدگی کو مزید تلخ بنایا نہیں جائے گا ۔ پاکستان میں فوجی قانون کے تحت سزا دینے کا عمل نیا نہیں ہے جادھو پہلے ہندوستانی شہری نہیں ہیں کہ جنہیں جاسوسی کے الزام میں پاکستان میں سزا سنائی گئی ہو ۔ گذشتہ چار عشروں میں ایک درجن سے زیادہ ہندوستانی جاسوسوں کو سزا ہوئی جن میں بعض کو موت کی سزا سنائی گئی ۔ لیکن ان کی سزا پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا ۔ البتہ ان میں کئی لوگ جیل میں ہی وفات پا گئے ۔ کلبھوشن جادھو کے معاملہ میں پاکستان کا یہ پر زور ادعا ہے کہ وہ اپنے اعترافی بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ہندوستانی بحریہ کے حاضر سرویس افسر ہیں ۔ بلوچستان میں ان کی آمد کا مقصد ان بلوچ علحدگی پسندوں سے ملاقات تھی جنہیں ہندوستان کی جانب سے امداد فراہم کی جاتی ہے ۔ ہندوستان نے جادھو کے اس ویڈیو اعترافی بیان کو مسترد کردیا تھا اب جب کہ پاکستان نے جادھو کے معاملہ میں انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کا ادعا کیا تو اس کی سزا اور دیگر معاملوں کو لے کر بھی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کرے ۔ ہندوستان کا موقف بھی تبدیل ہونا چاہئے اور باہمی دوستی و سفارتی تعلقات کو بحال کرنے پر غور کرے ۔۔