کفر و شرک کے عمل سے اجتناب ضروری

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر

آج مسلمان اخلاقی انحطاط کے شکار ہیں‘ مختلف قسم کی برائیاں مسلم سماج میں پائی جارہی ہیں جو قابل صد افسوس ہیں لیکن اس سے بڑھ کر دلوں کو دہلانے والی‘ عقل و خرد کو جھنجھوڑنے والی بات یہ ہے کہ آج مسلمان خدا کو ایک مانتے ہوئے ہر خیر و شر اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان لاتے ہوئے اس کی قدرت کاملہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تراشے ہوئے پتھروں کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک رہے ہیں۔ کمترین مفادات کے لئے دیوی دیوتاؤں کو پوج رہے ہیں‘ مندروں میں خلوصِ دل کے ساتھ چندے دے رہے ہیں‘ بتوں کی تعظیم کررہے ہیں اور ان کو نقصان سے بچانے کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔
٭ ایک مرتبہ نوجوان دارالافتاء جامعہ نظامیہ آیا مجھ سے ملاقات کیا اور بتایا کہ مختلف کاروبار کیا ہر کاروبار میں مجھے نقصان ہوا‘ بالآخر میں نے ایک غیرمسلم دوست کے ساتھ پارٹنرشپ میں ایک کاروبار شروع کیا۔ میرے غیرمسلم دوست نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے کاروبار کامیابی و ترقی کے لئے دعائیں کریں گے۔ میں تمہارے ساتھ درگاہ کو چل کر دعا کرتا ہوں‘ تم میرے ساتھ مندر کو آکر پوجا کرو۔ چنانچہ وہ غیرمسلم میرے ساتھ درگاہ کو چلا اور ترقی کے لئے دعائیں کیا اور میں نے اس کے ساتھ مندر جاکر رزق میں کشائش کے لئے پتھر سے فریاد کیا۔ اس کی باتیں سن کر میں حواس باختہ ہوگیا اور فوراً اس کو حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب مفتی جامعہ نظامیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس کو توبہ کروائی‘ کلمہ پڑھایا‘ پھر سے داخل اسلام فرمایا اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنے کی تلقین فرمائی۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ غیرت اسلامی مرگئی کہ مسلمان دنیوی کاروبار میں ترقی کے لئے مندر کا رخ کرکے بے حس تراشیدہ پتھر سے اپنے رزق کی دعائیں کررہا ہے اور اپنے دل سے ایمان کی لازوال و بے بہا دولت و انمول خزانہ کو خارج کرکے آخرت میں کامیابی و نجات کے حق سے محروم ہورہا ہے۔
٭ ایک اور شخص فتویٰ کے لئے آیا اور کہا کہ والد کی جائیداد میں بیٹے اور بیٹی کا کیا حق ہے اور اس نے کہا کہ میری ایک بہن تھی جو غیرمسلم کے ساتھ جاکر شادی کرلی اور ہندوانہ رسم و رواج اختیار کرلی‘ انہی کے طور و طریق کے مطابق اپنی زندگی گزار رہی ہے’ کیا وہ بھی وراثت میں حقدار ہوگی؟ میں نے دریافت کیا کہ وہ مرتد کب ہوئی‘ والد کے انتقال سے قبل ہوئی یا بعد میں ہوئی۔ والد کے انتقال سے قبل وہ مرتد ہوئی ہے تو اس کو متروکہ والد سے وراثتاً کچھ نہیں ملتا اور اگر بعد میں مرتد ہوئی ہے تو وہ وارث ہونے کے بعد مرتد ہوئی ہے اپنا حصہ پائے گی۔ اس نے کہا کہ وہ والد کی زندگی میں ہی اسلام سے برگشتہ ہوگئی تھی اور اب اس کے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا‘

اس کو دو بچے ہیں اور وہ غیرمسلم سسرال ہی میں زندگی گزار رہی ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اپنی بہن سے کبھی ملاقات کی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے اس کے بعد کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی۔ میں نے کہا کہ وہ مرتد تو ہوچکی تمہارے والد کی جائیداد میں حصہ پانے سے محروم ہوگئی لیکن کیا تمہیں گوارا ہوگا کہ تمہاری بہن کا خاتمہ اسی حالت پر ہو۔ یہ دنیا تو ختم ہوجائے گی اگر اس کا خاتمہ اسی حالت پر ہوجائے تو وہ جہنم رسید ہوجائے گی اور جہنم کے دردناک و ہولناک عذاب میں اس کا جلنا تمہیں برداشت ہوگا‘ ہمدردی کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اس سے ملاقات کریں‘ وہ اپنے عمل کی جوابدہ ہے۔ اگر آپ کی کوشش سے وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے تو اس کی آخرت سنور جائے گی اور آپ کو اس کی ہدایت پر دنیا و مافیھا کی عظیم دولت و سعادت حاصل ہوگی۔ کئی ایک مسلمان مرد و خواتین نام نہاد مسلمان اور غیرمسلم عاملوں کے پاس جاکر کفر و شرک کا عمل کرتے ہوئے اسلام سے دور ہورہے ہیں۔ چنانچہ ایک جوڑا دارالافتاء جامعہ نظامیہ سے رجوع ہوکر بلیات سے نجات کے لئے بت کی تعظیم کرنے کا اقرار کیا جس پر حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب نے ان کا تجدید ایمان و تجدید نکاح فرمایا۔

٭ ایک نوجوان نے یہ کہا ہے کہ اس کی بہن کی شادی ہوئی‘ نوشہ اور اس کے گھر والے دیندار ہیں لیکن اُگادی کے موقع پر انہوں نے مندر کے لئے چندہ دیا۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہر سال اس طرح کا عمل ان کے خاندان میں چلا آرہا ہے۔ جس پر اس نوجوان نے اپنی بہن کو اپنے گھر لا لیا اور یہ بھی کہا کہ نوشہ اور اس کے گھر والوں نے کفر و شرک کا کوئی عمل نہیں کیا صرف چندہ دیا اور ہمارے اقدام پر انہوں نے آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنے کا عہد واثق کیا ہے۔