کفر بـاطـلـ عقیدہ ہے

مرسل: قاضی ابوذکوان

٭(شرع میں ) ایمان کی ضد کا نام کفر ہے ۔ یعنی جن چیزوں کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرنا واجب ہے ان کا انکار کرنا کفر اور انکار کرنے والا کافر کہلاتا ہے ۔ ( خواہ سب چیزوں کا انکار کرے یا کسی ایک چیز کا ‘خواہ  زبان سے انکار کا کوئی لفظ نکالے یا دل سے یقین نہ رکھے )  ٭کفر نہایت بری چیز ہے اس کا مرتکب (کافر) ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔ ٭انسان کو نعمت ایمان حاصل ہونے کے بعد اس کا شکر بجا لانا اس کے لوازم (اعمال صالحہ ) ادا کرتے رہنا اور اسکے زوال سے ڈرتے رہنا چاہئے ۔ پس ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ہمیشہ کفر کے اقوال وافعال سے بچتا رہے اور یاد رکھے کہ کلمات کفر کا قصداً زبان سے نکالنا (خواہ مذاق و دل لگی ہی سے کیوں نہ ہو ) آدمی کو کافر بنا دیتا ہے ۔ اگر احیاناً کوئی کلمہ کفر نادانستہ زبان سے نکل جائے تو اور بات ہے۔ اس صورت میں فوراً توبہ کرلینی چاہئے ۔  ٭کلماتِ کفر جن سے آدمی کافر ہوجاتا ہے بہت ہیں لیکن یہاں بطور نمونہ چند کلمات بیان کئے جاتے ہیں ۔ ان سے اور ان کے مثل دوسرے کلمات سے احتراز لازم ہے ۔ ٭اللہ جل شانہ کی جناب پاک میں بے ادبی کرنا یا برا بھلا کہنا ۔  ٭ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر کی شان میں بے ادبی کرنا ۔ ٭رسول کریم ﷺکی جناب مقدس میں گستاخی کرنا ( مثلاً آپ کے چہرہ مبارک میں یا اوصاف شریفہ سے کسی وصف میں یا آپ کے احکام سے کسی حکم میں کوئی عیب نکالنا ) ۔ { نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصۂ عقائد}