بہت دنوں کی بات ہے ترکی کے ایک گاؤں میں ایک محنتی کسان رہتا تھا ، اس کے گھرانے میں دادا ، دادی ، ماں ، باپ ، بہن بھائی سبھی شامل تھے ۔ دو بھائی استنبول کے کالج میں ہاسٹل میں رہ کر پڑھ رہے تھے ۔ وہ اپنے بھائیوں کو ہر ماہ خرچ بھیجتا تھا ۔
دادا ، دادی اس سے بہت پیار کرتے تھے اور پیار سے اس کا نام ’’ گورا ‘‘ رکھ دیا تھا ۔ گورا ماں باپ ، دادا ، دادی کی خدمت کرتا اور ان باتوں کو غور سے سنتا اور عمل کرتا تھا ۔ گورا غلہ بیچنے ایک دن بازار گیا تو وہاں اسے ایک ترکی ٹوپی پسند آگئی ۔ میرون رنگ کی گول گول پھندے والی اس نے زمانے میں اچھے عہدیدار بڑے بڑے لیڈر اور قابل علماء ہی اس ٹوپی کی استعمال کرتے تھے ۔ گورا ٹوپی لے کر گھر آیا تو دادی بہت خفا ہوئیں ۔ وہ تنہائی میں ٹوپی پہن کر دیکھتا اس کے گورے چہرے پر بہت جچتی تھی ۔ ایک دن بڑے آئینے میں وہ ٹوپی پہن کر مزہ لے رہاتھا کہ اس کی نگاہ اپنے معمولی دیہاتی کپڑوں پر پڑی اسے بہت شرم آئی ۔ یہ شاندار ترکی ٹوپی اور اس پر ایسے بے تکے کپڑے ۔ وہ بازار گیا اور اس نے مہنگے کپڑے خرید کر اپنا جوڑا بنایا ۔ پھر معمولی چال بدل گئی کیونکہ وہ ترکی ٹوپی سے میل نہیں کھاتی تھی ۔ پھر چار پائی کی جگہ عمدہ توشک چادر اور کمبل آگیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس ماہ ’’ گورا ‘‘ اپنے پڑھنے والے بھائیوں کو اسنبول روپئے نہ بھیج سکا ۔ ان دونوں کے کئی خطوط آگئے ۔ دادی اماں کو معلوم ہوا تو ان کو بڑا رنج ہوا ۔ انہوں نے گورے کو بلاکر سمجھایا دیکھو گورے قرآن میں لکھا ہے ’’ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ۔ تم نے اپنی ذات پر اتنی رقم خرچ کردی کہ بھائیوں کو ماہانہ خرچ نہ جاسکا ۔ اگر ایسی ہی فضول خرچی جاری رہی تو ان کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی ۔ گورا بہت شرمندہ ہوا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے کہ صرف میری فضول خرچی کی وجہ سے میرے بھائی جاہل رہ جائیں گے ۔ اس نے توبہ کی ۔ دادی کی نصیحت سے وہ سنبھل گیا ۔