مسئلے سنگیں سہی گر ہو جو نیت پر خلوص
اس جہاں کا کوئی مسئلہ اتنا لاینحل نہیں
کشمیر پر پاکستان کا موقف
ہندوستان اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر تنازعہ کی وجہ بنا ہوا ہے ۔ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے مابین ابتداء ہی سے ایک دوسرے کے اختلاف کو ہوا دیتا رہا ہے اور اس کو حل کرنے کی اتنی کوششیں نہیں ہوئی ہیں جتنی ہونی چاہئے تھیں ۔ ہندوستان نے حالانکہ ایک سے زائد مرتبہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدگی سے کوششیں کیں اور اس نے اپنی جانب سے پہل کرتے ہوئے اپنی سنجیدگی کا ثبوت بھی فراہم کیا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے اس مسئلہ پر جو غیر مستقل مزاج موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے اس کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑتا چلا گیا ہے ۔ پاکستان نے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دیا اور وہاں کے مقامی گروپس کو اس کی جانب سے ہر طرح کی مدد فراہم کی جاتی رہی ہے ۔ یہ وہ عمل تھا جس کے نتیجہ میں مسئلہ حل ہونے کی بجائے بگڑتا چلا گیا اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر ہونے کی بجائے مزید تناؤ اور کشیدگی کا شکار ہوتے گئے ۔ ہندوستان نے جب کبھی پاکستان کے ساتھ بہتر پڑوسیوں جیسے تعلقات بنانے چاہے اس وقت پاکستان میں کسی نہ کسی گوشے سے ایسی کوئی حرکت ہوئی جس کے نتیجہ میں تعلقات میں بہتری کی کوششیں متاثر ہوکر رہ گئیں۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں آگرہ میں ہوئی مشرف ۔ واجپائی چوٹی کانفرنس کے موقع پر یہ امید کی جارہی تھی کہ کوئی پیشرفت ضرور ہوگی لیکن یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ واجپائی کی خواہش کے باوجود یہ پیشرفت ممکن نہیں ہوسکی اور اس کے پس پردہ عناصر اور محرکات اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئے ۔ اب پاکستان کے فوجی سربراہ راحیل شریف نے کشمیر کو پاکستان کی رگ حیات قرار دے کر ایک اور تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کیلئے کشمیر رگ حیات ہے اور کشمیریوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔جنرل شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرار دادوں کی مطابقت میں حل کیا جانا چاہئے ۔ اس بیان کو ہندوستان میں تنقید کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور تقریبا سبھی جماعتوں نے جنرل راحیل شریف کے اس بیان کی مذمت کی ہے ۔ حکومت پاکستان نے تاہم ابھی تک اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔
اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے ساتھ اس ملک کے تعلقات بہتر ہونے پائیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسے عناصر موجود ہوں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں قائم ہونے والی ایک کے بعد دوسری حکومتوں نے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے میں اپنی مکمل سنجیدگی کا ثبوت فراہم کیا تھا لیکن پاکستان میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اکثر و بیشتر پاکستانی فوج کی جانب سے یا پھر انٹر سروسیس انٹلی جنس کی جانب سے ایسے بیانات دئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے قیام امن کی کوششیں متاثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہر اہم موقع پر کوئی نہ کوئی رکاوٹ ایسی پیدا کی گئی جس کے نتیجہ میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ میں پیشرفت ہونے کی بجائے رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اس کی اصل وجہ یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے فوج یا پھر فوج و آئی ایس آئی میں موجود مخالف ہند عناصر پر کوئی راست کنٹرول نہیں کیا جاتا ۔ فوج اپنی جانب سے من مانی بیانات جاری کرنے یا کوئی بھی کارروائی کرنے کیلئے آزاد محسوس کرتی ہے ۔ فوج کو ملنے والی یہی آزادی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ میں رکاوٹ محسوس ہوتی جارہی ہے ۔ ماضی میں جتنے بھی واقعات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے تعلقات متاثر ہوئے ہیں اس کیلئے پاکستان کی فوج کے بیانات یا کارروائیاں ہی وجہ بنی ہیں۔ جب تک اس طرح کی کوششوں پر روک لگانے میں حکومت پاکستان کامیاب نہیں ہوتی اس وقت تک تعلقات کو بہتر بنانا آسان نظر نہیں آتا ۔
پاکستان میں حکومت سیاسی عزم اور حوصلے سے عاری نظر آتی ہے ۔ حکومت اپنی بقا کیلئے فوج کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے تیار نہیں ہے اور اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے ۔ جب تک حکومت پاکستان کی جانب سے سیاسی عزم اور حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے فوج کو قابو میں کرنے کیلئے اقدامات نہیں کرتی اس وقت تک خود اس کا وجود بھی ہمیشہ ہی اندیشوں اور فکروں سے پاک نہیں ہو ہائیگا ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پاکستانی فوج کو یہ احساس دلائے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا خود پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس مفاد کی نہ صرف حفاظت کرنا بلکہ اسے پروان چڑھانا بھی حکومت اور پاکستانی فوج دونوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس ذمہ داری کو دونوں ہی فریقین کی جانب سے بہتر انداز میں نبھانے کیلئے ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہند۔ پاک تعلقات مستحکم اور بہتر ہوسکیں۔