کشمیر پر پاکستانی فوجی سربراہ کا بیان

کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک متنازعہ موضوع ہے ۔ ہندوستان اس مسئلہ پر باہمی بات چیت کے ذریعہ حل چاہتا ہے اور اس کیلئے ہندوستان کی جانب سے وقفہ وقفہ سے کوششیں بھی ہوتی ہیں ۔ پاکستان بھی حالانکہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں دلچسپی کا اعلان کرتا ہے اور وہ مسلسل چاہتا ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کا احیاء عمل میں آئے ۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں انتخابات کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرینگے ۔ نواز شریف نے گذشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت کی ۔ اس وقت بھی خیر سگالی کا اظہار کیا گیا ۔ تاہم حالیہ وقتوں میں پاکستان کے رویہ اور لب و لہجہ میں تبدیلی آئی ہے اور اس نے ہندوستان پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ پاکستان میں پیش آنے والی تخریب کار کارروائیوں کیلئے ہندوستان اور ہندوستانی ایجنسیوں پر الزام عائد کرنا ویسے تو پاکستان کا وطیرہ رہا ہے لیکن حالیہ وقتوں میں ان الزامات میںشدت آگئی ہے اور یہ ایک طرح سے پاکستان کے عوام کو حکومت کی ناکامیوں سے بیزار ہونے سے روکنے کی کوشش ہوسکتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہو رہی ہے اس تعلق سے پاکستان کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ویسے تو پاکستانی فوج یا پھر سیاسی قیادت کی جانب سے وقفہ وقفہ سے ہندوستان پر تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں اور متنازعہ ریمارکس بھی کئے جاتے ہیں لیکن اب خود فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک اشتعال انگیز بیان دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر تقسیم کا ایک غیر مختتم ایجنڈہ ہے ۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کئے جاسکتے اور کشمیر تقسیم کا ایک غیر مختتم ایجنڈہ ہے ۔ ان کا یہ بیان اور ریمارکس ہوسکتا ہے کہ اندرون ملک ان کی واہ واہی کا باعث بنے لیکن اس سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس سے دو پڑوسی ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہونگی اور یہ رکاوٹیں امن قائم کرنے کی راہ میں بھی حائل ہونگی ۔ اس سے کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی ۔

ایک دن قبل ہی پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے ایک بیان دیتے ہوئے ہندوستان پر بات چیت کے احیاء کیلئے شرائط لاگو کرنے کا الزام عائد کیا تھا ۔ انہوں نے ہندوستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لائین آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے ۔ کشمیر میں عوام کے انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور پاکستان میں تخریب کار سرگرمیوں کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس سب کے باوجود پاکستان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بات چیت کیلئے حالات کو سازگار بنانے اقدامات کرے ۔ حالیہ وقتوں میں گلگت ۔ بالٹستان کے تعلق سے بھی دونوں ملکوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک تواتر سے ہوتا جا رہا ہے اور پھر اب فوجی سربراہ نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس سے یقینی طور پر اشتعال پیدا ہوگا اور حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں متاثر ہونگی ۔ پاکستان مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر توازن بگاڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور وہ اس مسئلہ میں اقوام متحدہ کے رول کو یقینی بنانا چاہتا ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دو ملکوں کے باہمی اختلاف میں تیسرے فریق کی مداخلت کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان بارہا ایسی کوششیں کرتا رہا ہے جس میں اب تک اسے ناکامی ہی ہاتھ آئی ہے ۔ ان ناکامیوں کے باوجود اگر اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دئے جاتے ہیں تو یہ امن کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی دو پڑوسی ملک ایک دوسرے سے معمول کے مطابق تعلقات بحال کر پائیں گے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بحالی خود پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر ہے اور اس حقیقت کو وہاں حکومت اور عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

پاکستان میں اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ فوجی قیادت وہاں کی سیول اور سیاسی قیادت پر کم از کم ہندوستان سے تعلقات اور کشمیر کے مسئلہ پر اثر انداز ہوتی آئی ہے ۔ اس معاملہ میں پاکستانی حکومت بے بس نظر آتی ہے ۔ حکومت پاکستان کی یہی بے بسی فوج کے حوصلے بلند کرنے کا باعث ہے ۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ سیاسی عزم و حوصلے سے کام لیتے ہوئے فوجی قیادت اور ایسے عناصر کو ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے مسئلہ میں مداخلت سے روکے جو تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو سبوتاج کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ جب تک حکومت پاکستان ایسے عناصر پر قابو نہیں پاتی اور مخالف ہند بیانات اور اشتعال انگیز ریمارکس کا سلسلہ بند نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان ‘ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے احیاء کی امید نہیں کرسکتا ۔