وزیر اعظم نریندر مودی دیوالی کے موقع پر کشمیر جا پہونچے ہیں۔ ان کا ادعا ہے کہ وہ کشمیر میں آئے حالیہ سیلاب میں ہوئے نقصانات کا جائزہ لینے کشمیر پہونچے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا جائے ۔ یہ تو ظاہری وجہ انہوں نے ملک کے عوام کو دکھانے کیلئے بتائی ہے لیکن حقائق ایسا لگتا ہے کہ اس کے برعکس ہیں ۔ نریندر مودی ریاست کے عوام کی مشکلات کا حل دریافت کرنے اور ان کو تسلی دینے کیلئے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے وادی کشمیر گئے ہیں۔ سارا ملک جانتا ہے کہ کشمیر میں گذشتہ مہینے سیلاب نے کتنی تباہی مچائی تھی اور عوام کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ابھی تک وہاں کوئی جامع مرکزی ٹیم روانہ کرتے ہوئے انہوں نے نقصانات کا تخمینہ کروانے کا بنیادی کام تک نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہو ںنے سیلاب کے دنوں میں ریاست کے فوری دورہ کے موقع پر خاطر خواہ فنڈز فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ حالانکہ مودی کابینہ کے ایک سے زائد وزرا نے اس وقت ریاست کا دورہ کرتے ہوئے نقصانات پر اظہار خیال کیا تھا لیکن نریندر مودی نے ریاست میں عوام کو تسلی دینے کیلئے ایک ماہ سے زیادہ وقت لگادیا ہے ۔ یہ ملک کے عوام کے تئیں ان کی ہمدردی اور دلی جذبات کی عکاسی کیلئے کافی ہے ۔ اس وقت کشمیر کے سیاسی قائدین کے ایک وفد نے دہلی پہونچ کر وزیر اعظم سے ریاست کی مالی مدد کرنے اور مشکل وقت میں ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کی درخواست کی تھی ۔ مودی نے ان سب کو تیقن دیتے ہوئے ٹال دیا تھا ۔ اس کے برخلاف جب گذشتہ دنوں آندھرا پردیش میں طوفان ہد ہد کی وجہ سے تباہ کاریاں ہوئیں تو مودی دوسرے ہی دن آندھرا پردیش پہونچ گئے اور ایک ہزار کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا ۔ یقینی طور پر آندھرا پردیش کا دورہ اور مالی امداد بھی وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے اور انہوں نے ٹھیک کیا لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے کشمیر کے سیلاب متاثرین کے ساتھ اس طرح کا ٹال مٹول والا رویہ کیوں اختیار کیا ؟ ۔ کیا یہ سب کچھ ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تھا ؟ ۔ اب دوبارہ کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے نریندر مودی کا بنیادی مقصد صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ریاست کے عوام کو تسلی دینا یا ان کے نقصانات کا جائزہ لینا محض ایک سیاسی عذر ہے ۔
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں کسی بھی وقت وہاں انتخابات کا اعلان ہوسکتا ہے ۔ اب تک یہ اعلان ہو بھی جاتا لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے اس میں قدرے تاخیر کی جارہی ہے ۔ ایسے میں نریندر مودی چاہتے ہیں کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد اور انہیں تسلی دینے کے نام پر سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ماہ کی تاخیر کے بعد انہوں نے ریاست کا دورہ کرنے اور دیوالی ‘ سیلاب متاثرین کے ساتھ منانے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کا یہ اعلان اور یہ سفر محض ایک سیاسی شعبدہ ہے اور ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح کی شعبدہ بازی ذیب نہیں دیتی ۔ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے نریندر مودی کو ہر کام میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ ملک کے اس جلیل القدر عہدہ کے وقار کو گھٹانے کے مترادف ہے ۔ نریندر مودی کو چاہئے تھا کہ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے وقت دورہ کے موقع پر خاطر خواہ مالی مدد کا اعلان کرتے ‘ متاثرین کے حوصلے بڑھاتے اور ان کی ہر طرح کی مدد کا اعلان کرتے ۔ لیکن اس وقت انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ صرف کچھ تیقنات دے کر کام چلانا ہی کافی سمجھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے جموں و کشمیر سیلاب کو بھی ‘ جس میں بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں ہوئیں ‘ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
نریندر مودی ویسے تو اپوزیشن جماعتوں کو یہ درس بار بار دینا نہیں بھولتے کہ وہ ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ نہ دیں لیکن وہ خود ہر مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے چوکتے نہیں ہیں ۔ اس سے ان کے قول و فعل میں تضاد واضح ہوجاتا ہے اور وزارت عظمی کے جلیل القدر عہدہ پر فائز شخص کو ایسی مثال قائم کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ درست ہے کہ سیاست ہی کے ذریعہ مودی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں لیکن اس عہدہ پر پہونچنے کے بعد ان کی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں اور اس عہدہ کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہر مسئلہ پر سیاست کرتے ہوئے اس عہدہ کے وقار اور اس کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے سیلاب کی تباہ کاریوں اور ایک تہوار کا استحصال کرنے کا بھی جواز نہیں ہوسکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی یا ان کی جماعت یا ان کا حامی میڈیا اس کو الگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح کی سیاسی موقع پرستی وزارت عظمی کے عہدہ کیلئے کسی بھی حال میں درست نہیں کہی جاسکتی ۔