بات چیت سے حالات میں تبدیلی آئیگی سوشیل میڈیا پر کشیدگی پھیلانا باعث تشویش ‘یشونت سنہا و راوش کمار کا خطاب
حیدرآباد 2 اکٹوبر ( پی ٹی آئی ) بی جے پی لیڈر یشونت سنہا نے آج تجویز کیا کہ جموںو کشمیر میں فوج کو بیارکس میں واپس چلے جانا چاہئے اور انسداد عسکریت پسندی مہم سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس کے سپرد کردی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے ریاست کے عوام کی نفسیات پر مرہم رکھنے کا حساس پیدا ہوگا ۔ سابق وزیر خارجہ نے مزیدکہا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے مسئلہ میں ضروری تیسرا فریق بن گیا ہے اور یہ سب کچھ ہماری خود کی غلطیوں کے دہرائے جانے کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے یہاں ایک تقریب میں ’’ کشمیر اب ۔ اور مزید آگے ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں فوری ضرورت یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں خود ہمارے عوام سے بات چیت کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں بہت زیادہ تشدد ہوچکا ہے اور بہت زیادہ زندگیاں تلف ہوچکی ہیں ان میں سکیوریٹی فورسیس کے اہلکاروں کی زندگیاں بھی شامل رہی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان زندگیوں کے تلف ہونے کو روکا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ فوج کی ابتدائی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف مقابلہ کرے ۔ انہوں نے کہا کہ گاووں اور ٹاؤنس میں جہاں عسکریت پسندی کی صورتحال ہے ہندوستانی فوج سب سے پہلے آتی ہے اور سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس بعد میں آتی ہے ۔ سابق وزیر نے کہا کہ وہ جموںو کشمیر کے بشمول داخلی لا اینڈ آرڈر کو کنٹرول میں کرنے مسلح افواج کے زیادہ استعمال کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو بیارکس میں واپس چلے جانا چاہئے اور عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کو سی آر پی ایف اور جموںو کشمیر پولیس کے سپرد کردیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ریاست کے عوام کی نفسیات پر مرہم رکھا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سی آر پی ایف میں صلاحیت ہے اور اسے عسکریت پسندی سے نمٹنے کی تربیت حاصل ہے ۔ وہ ملک میں دائیں بازو کی تخریب کاری کے مسئلہ پر ریاستی پولیس کے ساتھ کام کرچکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور عوام چاہتے ہیں کہ ان سے کئے گئے وعدے کے مطابق بات چیت کا آغاز ہو۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی کثیر تعداد نے یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریند ر مودی کی تقریر کا خیر مقدم کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کے مسئلہ کو گولیوں اور گالیوں سے نہیں بلکہ تمام کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ریاست کے عوام ایک سیاسی مصروفیت کے منتظر ہیں لیکن اولین ذمہ داری داخلی ذمہ داروں کی شناخت کرنا ہے ۔ پہلے یہ ذہن بنانا ہے کہ بات چیت کس سے ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں ‘ سیول سوسائیٹی کے گروپس ‘ دانشوروں ‘ تجارتی اداروں ‘ نوجوانوں وغیرہ سے بات چیت ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس دن مرکزی حکومت نے بات چیت کے آغاز میں دلچسپی دکھائی اسی دن ریاست کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے خود ہمارے عوام ہمارے شہریوں سے بات چیت شروع کی جانی چاہئے ۔ جس وقت اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے انہوں نے بات چیت کے آغاز کا فیصلہ کیا تھا اور اس وقت کے ڈپٹی وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کو اس کی ذمہ داری دی تھی ۔ موجودہ حکومت کو بھی اپنی جانب سے بات چیت کیلئے نمائندہ مقرر کرنا چاہئے ۔ مشہور جرنلسٹ رواش کمار نے کہاکہ نوجوان نسل کو ٹرول کی سیاست سے دور رکھنے سماج میں اصلاحات ضروری ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ فرضی ویڈیو او رتصوئیروں کے ذریعہ ایک گھنائونی سازش کے تحت سماج میں نفاق پیدا کرنے کی کوششوں کے خلاف منظم تحریک کی شروعات سماج کے ان ذمہ داران پر عائد ہوتی ہے جو ملک کے موجودہ حالات میں اضطرابی کیفیت کاشکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نفرت پھیلانے والوں کا سب سے بڑا ہتھیار فی الحال سوشیل میڈیا بناہوا ہے۔ ایک مشہور آئی ٹی سل ہے جو کسی بھی واقعہ کو کہیں بھی جوڑ کر اس واقعہ کے ذریعہ سماج میںنفرت پھیلانے کی کوئی موقع نہیں گنواتا ۔ راوش کمار نے کہاکہ سرکاری مشنری سے لیکر آئی ٹی سل کے لوگوں تک کسی کے پاس بھی جوابدہی کا خوف اب باقی نہیںرہا۔ انہو ںنے کہاکہ فرضی انکاونٹر کے نام پر حکومتی ادارے پولیس والوں کے خلاف کاروائی تو کرتے ہیںمگر ان آئی پی ایس افسروں کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیںہوتی جو انکاونٹر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سہراب الدین اور عشرت جہاں انکاونٹر کے حوالے سے کہاکہ کرناٹک کے ایک جسٹس کو اس واقعہ کی سی بی ائی تحقیقات کے حکم دینے کی وجہہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیاگیا۔