قتل چھپتے تھے کبھی سنگ دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
کشمیر میں دہشت گرد حملے
وادی کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دوران ایک روز میں ہی پانچ مختلف حملوں کے ذریعہ 21 افراد کو ہلاک کردینے والی دہشت گرد کارروائیوں کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔ ہندوستانی سپاہیوں کو نشانہ بناکر کیا گیا حملہ وادی کی سکیورٹی صورتحال کے ابتر ہونے کا ثبوت سمجھا جائے گا۔ انتخابات کے موقع پر وادی میں سخت ترین سکیورٹی انتظامات کے ادعا اور وزیراعظم نریندر مودی کے دوروں کے موقع پر اختیار کردہ زائد چوکسی کے باوجود عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر کے پانچ حصوں میں حملے کئے ہیں تو یہ سرسری کارروائی نہیں ہوسکتی اس کے لئے عسکری گروپس نے منصوبہ بند طریقہ سے تیاری کی ہوگی۔ گزشتہ 20 سال میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ 12 گھنٹوں کے اندر مسلح عسکریت پسندوں نے وادی کو پانچ حملوں سے دہلادیا ہے۔ سب سے بڑا حملہ شمالی کشمیر کے اوری قصبہ میں ہوا۔ فوجی کیمپ پر گھس کر حملے کرنے کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکری طاقتوں نے عصری تیاری کی تھی۔ وادی کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد سے وادی کشمیر میں کئی مسلح حملے ہوئے ہیں۔ فوج نے ہر حملے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ فوج کی جرأت مندی اور بہادری کی ستائش کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے اس طرح کے خطرناک حملوں کا سامنا کرنے والی فوج کو عصری تقاضوں سے آراستہ کرنے میں کوئی پھرتی نہیں دکھائی ہے۔ فوج نے آرتیہ سیکٹر میں بھی ایک طویل جھڑپ کے دوران 10 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ کشمیر کی سیاسی زندگی میں رخنہ ڈالتے ہوئے اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والی بی جے پی کے لئے یہ تازہ حملے ایک بڑا چیلنج سمجھے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند دن قبل ہی وزیراعظم مودی نے وادی کشمیر میں انتخابی مہم چلائی تھی اور اب وہ پیر کے دن بھی وادی کشمیر کا دورہ کررہے ہیں۔ ان کی وادی میں موجودگی اور سکیورٹی انتظامات کے تناظر میں ایسے حملے کرنے میں عسکریت پسند کامیاب ہوتے ہیں تو یہ فوج اور حکومت کے لئے لمحہ فکر ہے۔ کشمیر میں جو سکیورٹی نظام ہے وہ سارے ملک کے سکیورٹی نظام سے ہٹ کر پولیس، فوج اور نیم فوجی اداروں کا ایک مشترکہ کور گروپ ہونے کے باوجود فوجی جوانوں، شہریوں کی سلامتی غیر یقینی ہوتی ہے تو سکیورٹی ڈھانچہ کو مزید مضبوط بنانے اور تشدد پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں دہشت گرد حملوں کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے والی مودی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ سکیورٹی ڈھانچہ کو عصری بنائے۔ سکیورٹی ملازمین کی زندگیوں کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سکیورٹی کیمپ پر حملے میں فوجی جوانوں کی زندگیاں ضائع ہوتی ہیں۔ یہ حملہ گزشتہ 6 سال میں ریاست کے اندر سکیورٹی فورس کا سب سے زیادہ نقصان ہے۔ خون ریزی کے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہ ہونے سے وادی کشمیر کے سکیورٹی جوانوں کو ہر وقت زندگیاں داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ ہندوستانی سکیورٹی فورسیس کی طاقت کے لئے چیلنج بننے والے حملوں کو روکنے کے لئے ہمارے جوانوں کو عصری طور پر تیار کرنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دو مرحلوں میں بھاری رائے دہی کے بعد وادی میں امن کو نقصان پہونچانے کا منصوبہ رکھنے والی تنظیموں نے اسے اپنی شدید ناکامی متصور کرکے خون ریز کارروائیاں کی ہیں۔ مسلح افواج کو خصوصی اختیارات قانون کی موجودگی کے باوجود فوج کو اپنے جوانوں کی زندگیاں بچانے میں ناکامی ہوتی ہے تو اس قانون کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی۔ گزشتہ 6 سال سے چیف منسٹر عمر عبداللہ بھی مسلح افواج خصوصی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔ 1990 ء میں ہی حکومت نے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں راجوری اور پونچھ کو گڑ بڑ زدہ علاقے قرار دے کر یہاں مسلح افواج خصوصی اختیارات قانون کے تحت اقدامات کئے تھے۔ اس قانون کی وجہ سے فوج پر بیجا اختیارات و زیادتیوں کا بھی الزام عائد کیا گیا بالکلیہ طور پر حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی مگر ایک دن میں کئے گئے 5 حملوں نے گزشتہ 6 سال کی سکیورٹی کاوشوں کو ناکام بنادیا ہے۔ وادی کشمیر میں بی جے پی کی جانب سے دلچسپی لینے کے بعد سکیورٹی صورتحال مزید نازک ہوتی ہے تو یہ وادی کشمیر کے عوام کے لئے تشویشناک بات ہے۔ بی جے پی اپنی سیاسی جڑوں کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو آگے چل کر وادی کشمیر کے حالات کیا رُخ اختیار کریں گے، بعیداز قیاس ہیں۔ عسکری طاقتوں کو وادی میں امن کو درہم برہم کرنے کا موقع دیا گیا تو پھر سرحدوں پر ’’مس ایڈونچر‘‘ کی منصوبہ بندی تقویت پائے گی۔ وادی کشمیر کے عوام کو اس ذہنی تناؤ سے چھٹکارا دلانے کے لئے امن کی بحالی کو یقینی بنانے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی
عالمی سطح پر تیل کی گرتی قیمتوں کا سب سے زیادہ فائدہ وزیراعظم نریندر مودی کو اور سب سے زیادہ نقصان صدر روس ولادیمیر پوٹین کو ہورہا ہے۔ مودی کو فائدہ اس لئے ہورہا ہے کہ ان کے اقتدار پر آنے کے فوری بعد ساری دنیا میں تیل کی شرحیں کم ہونے لگیں تو انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کا حوالہ دے کر مودی حکومت نے اندرون ملک پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں علی الترتیب 9 اور 6 روپئے تک کمی کی ہے۔ عام آدمی کو یہ باور کیا جارہا ہے کہ مودی حکومت نے اپنا وعدہ پورا کرنے مہنگائی پر قابو پانے کی شروعات کی ہے جبکہ پٹرول کی قیمت میں کمی کے بعد عام مارکٹ میں دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ ماضی میں جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو ضروری اشیاء کی قیمت بڑھاکر بیوپاری یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ پٹرولیم اشیاء مہنگے ہوگئے ہیں تو شرح بار برداری پر اضافی لاگت آرہی ہے۔ عالمی مارکٹ میں تیل کی گرتی قیمتوں کی اصل وجہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں خاص کر مغربی دنیا فاضل پیداوار درج کی گئی ہے۔ اس کا منفی اثر روس کی معیشت پر پڑرہا ہے۔ صدر روس ولادیمیر پوٹین نے پارلیمنٹ میں اپنے سالانہ خطاب میں مغربی ملکوں کی سازشوں اور تیل کی قیمتوں میں اس گراوٹ کو ایک گہری چال سے تعبیر کیا ہے۔ روس کو آج اقتصادی ابتری سے دوچار کرنے والے مغربی ملکوں کا نشانہ ہندوستان بھی ہوسکتا ہے اس لئے ہندوستان کی حکومت کو تیل کی گرتی قیمتوں پر خوش ہونے کے بجائے احتیاطی اقدامات یعنی حفظ ماتقدم اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ روس کو یوکرین کی پالیسی کے باعث پریشان کیا جارہا ہے۔ اس کی گرتی روہل کی قدر میں بھی نو فیصد کمی آچکی ہے۔ تیل کی وجہ سے روس کو اربوں ڈالر کا خسارہ ہورہا ہے۔ مغربی طاقتوں کی پالیسیاں کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوتیں اس لئے موجودہ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کو اقتصادی سطح پر خطرناک سمجھا جائے تو حکومت ہند کو خوش فہمی سے گریز کرنے میں مدد ملے گی۔