ہے دور مفادات پرستی کا جہاں میں
آفات سماوی ہیں سیاست کا کھلونا
کشمیر سیلاب ‘ راحت رسانی کی سیاست
ملک کی جنت نظیر ریاست جموں و کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ سیلاب نے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے ۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ہنوز پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں افراد کی زندگیاں ختم ہوگئی ہے ۔ کئی خواتین بیوہ اور کئی بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ کئی ماؤوں کی گود اجڑ گئی ہے ۔ ساری ریاست میں خطرناک تباہی کا منظر ہے ۔ ہر جانب مسائل ہیں اور ابھی تک کئی علاقے ایسے ہیں جہاں تک نہ کوئی راحت پہونچ سکی ہے اور نہ پانی میں گھرے ہوئے افراد کو بچانے کیلئے وہاں تک کسی کی رسائی ممکن ہوسکی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا ابھی تک بھی مکمل اندازہ کسی کو بھی نہیں ہوسکا ہے ۔ خود ریاستی حکومت بھی ایسا لگتا ہے کہ صرف ہنگامی انداز میں کام کر رہی ہے ۔ سرکاری دفاتر کا بھی وجود ختم ہوکر رہ گیا ہے اور نہ وہاں کوئی انتظامیہ نام کی چیز باقی رہ گئی ہے اور نہ حکام سوچ سمجھ کر کچھ کرنے کے موقف میں ہیں ۔ وہاں تو قیامت صغری کا منظر دکھائی دیتا ہے ۔ ہر جانب عوام مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے لاکھوںافراد کو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے روٹی اور پیاس بجھانے کیلئے پینے کا پانی تک بھی دستیاب نہیں ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر گوشہ جموں و کشمیر کے عوام کیلئے ہمدردی محسوس کر رہا ہے ۔ ان کی مدد کیلئے مختلف گوشوں سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی امداد کا اعلان کیا گیا ہے اور ریاستی حکومت بھی اپنے طور پر جو کچھ ممکن ہوسکتا ہے وہ کر رہی ہے تاہم ان حالات میں ایک پہلو افسوسناک دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کشمیر میں سیلاب متاثرین کی امداد اور راحت رسانی میں بھی سیاست کا دخل ہو گیا ہے ۔ جس طرح سے وہاں راحت رسانی کا کام جاری ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن اس میں ریاستی اور مرکزی حکومت کی کوششوں کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہوئے سیاسی کھیل کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہاں صرف مرکزی حکومت پوری سنجیدگی سے امداد رسانی میں مصروف ہے اور ریاستی حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے ۔ اس سیاسی کھیل کی وجہ جموں و کشمیر میں عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔
بعض ٹی وی چینلس پر اور دیگر گوشوں کی جانب سے ہر کوشش کو مرکزی حکومت سے منسوب کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کو راحت رسانی کیلئے عملا کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ یقینی طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے جس طرح سے جموں و کشمیر میں امداد رسانی کا کام شروع کیا گیا ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر ہے اور اس کے نتیجہ میں سیلاب کے پانی میں پھنسے ہوئے لاکھوں افراد کو راحت ملی ہے اور جو لوگ ابھی تک پانی میں محصور ہیں انہیں بھی کچھ امید پیدا ہوئی ہے لیکن اس کو مرکز ۔ ریاست کی سطح پر تقسیم کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے تعلق سے عوام کے ذہنوں میں مخالفت یا الجھن پیدا کرنا سیاسی عزائم سے خالی نہیں ہیں۔ بعض گوشے چاہتے ہیں کہ اس آفت سماوی کا بھی سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے کیونکہ ریاست میں بہت جلد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںاور سیلاب میں راحت کاری کے نام پر سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے وہاں فائدہ حاصل کیا جائے ۔ اس کیلئے راست یا بالواسطہ طور پر نام نہاد میڈیا کی بھی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ جس طرح سے لوک سبھا انتخابات سے قبل میڈیا کے ذریعہ مہم چلائی گئی تھی اب بھی اسی طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ریاست کے عوام کو ریاستی حکومت کے تعلق سے بدظن کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے آغاز سے ہی چیف منسٹر عمر عبداللہ بے تکان جدوجہد کر رہے ہیں اور وہ راحت کاری کاموں میں خود جٹ گئے ہیں ۔ کئی موقعوں پر انہوں نے معمولی عہدیداروں کے کام خود کئے ہیں۔ وہاں ان کی حکومت کا سارا نظم و نسق عملا ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ سرکاری دفاتر میں کام کاج فی الحال ممکن ہی نہیں ہے ۔ کئی اعلی عہدیدار خود پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ راستے قابل استعمال نہیں رہ گئے ہیں۔ مواصلاتی نظام تین دن کے بعد کچھ حد تک کارکرد ہوسکا ہے ۔ ریاستی حکومت کے وسائل سے بھی ہر کوئی اچھی طرح سے واقف ہیں ۔ ایسے میں ریاستی حکومت جو کچھ راحت رسانی کے کام کرسکتی تھی وہ کر رہی ہے ۔ اگر ریاستی حکومت سے کہیں کوئی کمی رہ بھی گئی ہو تو اس کو درپیش حالات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور قومی سانحہ کے اس وقت میں کسی کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں کی بجائے انسانیت کے پہلو سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی حکومت راحت رسانی کیلئے جو کچھ کر رہی ہے وہ اس کا فریضہ ہے اور اسے بہت کچھ کرنا باقی بھی ہے ۔ راحت رسانی کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا افسوسناک ہے ۔