پھر سے آیاہے موسم سرما دھند ہے سارے مرغزاروں میں
گرنے والی ہے برف پھر شائد لگ گئی آگ پھر چناروں میں
کشمیر ‘ تعطل کب تک رہے گا
سرحدی ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی تعطل برقرار ہے ۔ سابق چیف منسٹر مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد سے ریاست میں جمود کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ پہلے تو مفتی سعید کا سوگ تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں اب اقتدار کی حصہ دار دونوں ہی جماعتیں کوئی ایسا فارمولا تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہیں جس کے ذریعہ ریاست میں تعطل کو ختم کیا جاسکے ۔ برسر اقتدار جماعت پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کی صدارت پر محبوبہ مفتی کو فائز کردیا گیا ہے جس کے بعد سے وہ صرف ریاست میں حالات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی حالات اور پارٹی کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اقتدار میں پہلے سے شریک رہی بی جے پی کے ساتھ مزید کوئی اتحاد یا رفاقت نہیںچاہتیں۔ حالانکہ محبوبہ مفتی یا پھر پارٹی کے کسی ترجمان نے اس تعلق سے کسی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کیا ہے لیکن جو حالات دکھائی دے رہے ہیں وہ ایسے نہیں لگتے جن کے تحت دونوں جماعتوں میں اقتدار کی تقسیم پر پھر سے کوئی سمجھوتہ ہوسکے ۔ ریاست میںجب اسمبلی انتخابات ہوئے تھے ریاست کے عوام نے بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ ان جماعتوں کو ووٹ دیا تھا اور ان جماعتوں نے بھی ریاست کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی تکالیف اور مصائب کو ختم کیا جائیگا ۔ ان کو راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ انہیں روزگار فراہم کیا جائیگا ۔ ریاست میں سیاحت کی صنعت کو ترقی دی جائیگی کیونکہ یہی صنعت ریاست کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کشمیری عوام کی اکثریت اسی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنے لئے گذر بسر کے وسائل حاصل کرتی ہے ۔ ان امیدوں کے ساتھ جب مفتی محمد سعید ریاست کے چیف منسٹر بنے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ درمیان ہی میں داعی اجل کو لبیک کہیں گے ۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ اسی طرح مفتی سعید بھی راہی ملک عدم ہوگئے ۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی جماعت یا پھر خود مفتی سعید کی جانشین ان کی دختر محبوبہ مفتی بھی اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہیں۔ ان کے سامنے مستقبل کے جو منصوبے ہیں ان میں وہ بی جے پی کو حصہ دار بنانے کیلئے تیار نظر نہیں آتیں۔
محبوبہ مفتی کے سامنے چاہے کچھ بھی مسائل ہوں یا ان کی ترجیحات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات طئے ہے کہ اس سیاسی تعطل کی وجہ سے ریاست میں جو جمود کی کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ ریاست کے عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں ہرگز بھی معاون نہیں ہوسکتی ۔ ریاست میں تقریبا تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ ریاست کی ترقی کا سفر بھی رک گیا ہے اور معیشت کو بھی بہتر اور مستحکم بنانے کے عزائم اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔ سیاسی زندگی ہو یا عوامی زندگی اس طرح کے حادثات سے سب کو گذرنا ہے لیکن ہمارے سامنے جو مقاصد ہوتے ہیں ان کی تکمیل کیلئے جدوجہد بھی زندگی کا لازمی حصہ اور جز و لاینفک ہے ۔ محبوبہ مفتی ابھی تک یہ واضح نہیں کر پائی ہیں کہ وہ ریاست میں اقتدار سنبھالنا چاہتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کھل کر تو کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن یہ اشارے ضرور مل رہے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں ریاست میں تشکیل حکومت کا دعوی پیش کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے ریاست کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام کو حکومت سے راحت کی جو امیدیں تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی نظر آئیں گی ۔ محبوبہ مفتی ہو یا ان کی جماعت پی ڈی پی ہو اسے چاہئے کہ وہ تاخیر ہونے سے پہلے حرکت میں آئیں اور مفتی محمد سعید نے جو مشن ادھورا چھوڑا ہے اسے آگے بڑھانے کا عزم کرتے ہوئے عوام کی خدمت میں جٹ جائیں۔ یہی ان کا مقصد ہونا چاہئے اور اسی مقصد کو آگے بڑھانے کیلئے انہیں کمر کس لینی چاہئے ۔
ریاست میں صدر راج نافذ ہوگیا ہے اور صدر راج اور عوامی منتخبہ حکومت کی کارکردگی میں جو فرق ہوتا ہے اس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے ۔ اس فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی ایک موقف اختیار کرتے ہوئے صورتحال کو واضح کیا جانا چاہئے ۔ ریاست کے عوام نے پی ڈی پی سے امیدیں وابستہ کی تھیں اور اسے اقتدار سونپا تھا ۔ بھلے ہی ریاست کے عوام کی رائے منقسم رہی ہو لیکن امیدیں ضرور وابستہ تھیں۔ ان زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے جو ریاست کے عوام کو عسکریت پسندی اور اس کے اثرات سے لگے ہیں۔ خود پی ڈی پی کیلئے بھی لیت و لعل اور ٹال مٹول کی سیاست یا پالیسی کارکرد ثابت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس سے ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کے عزائم کو پورا کیا جاسکتاہے ۔ ریاست میں جو جمود پیدا ہوگیا ہے اسے ختم کرنے کی اور پھر سے حرکیاتی سرگرمیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔