تشدد اور ظلم کے ذریعہ عوام کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکتا، گرفتاریوں کی مذمت
سری نگر ، یکم مارچ (سیاست ڈاٹ کام) میرواعظ عمر فاروق کی زیر قیادت حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کوئی امن و قانون کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سوا کروڑ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے تعین کا مسئلہ ہے جس کا ایک پائیدار اور منصفانہ حل پاکستان ، ہندوستان اور کشمیر کے کروڑوں عوام کے مجموعی مفاد میں ہے اور اس مسئلے کے حل کو جتنی دیر تک التواء میں رکھا جائے گا اس خطے میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ حریت کے ایک ترجمان نے کہا کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کی ایگزیکٹو کونسل ، جنرل کونسل اور ورکنگ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس آج حریت چیئرمین میرواعظ عمر فاروق کی صدارت میں حریت صدر دفتر راج باغ سری نگر میں منعقد ہوا، جس میں حریت کانفرنس کی ایگزیکٹو کونسل کے اراکین مولانا محمد عباس انصاری، پروفیسر عبد الغنی بٹ، بلال غنی لون اور مختار احمد وازہ نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں رواں سیاسی، تحریکی اور تنظیمی صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ حریت ترجمان کے مطابق اجلاس میں حریت کانفرنس کے اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے دائمی حل تک پورے جنوبی ایشائی خطے میں پائیدار امن اور استحکام کا قیام بعید از امکان ہے اور یہ کہ مسئلہ کشمیرکا حل یا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل آوری یا پھر مسئلے سے جڑے سبھی فریقین جموں کشمیر کے عوام، ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک بامعنی اور نتیجہ خیر مذاکراتی عمل کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہندوستان اور اس کے ریاستی اتحادیوں نے کشمیر میں حریت پسند قیادت اور عوام کی آواز کو کچلنے کے لئے جو سخت گیر پالیسی اختیار کی ہے اور آئے دن گرفتاریوں ، ظلم و تشدد ، نہتے مظاہرین پر جان لیوا پلیٹ گن کے بے تحاشہ استعمال اور حریت پسند قیادت کی پُر امن سرگرمیوں پر آئے روز کی پابندیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ اس امر کا غماز ہے کہ حکومت ہندوستان یہاں طاقت اور تشدد کے بل پر کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کو کچل کر کشمیر پر اپنے قبضہ کو دوام بخشنا چاہتا ہے تاہم اس قسم کی پُر تشدد کارروائیوں سے نہ تو ماضی میں کشمیری عوام کے حوصلوں کو پست کیا جاسکا ہے اور نہ اب کے تشدد پسندی سے عبارت سیاست کاری سے یہاں کی مزاحمتی قیادت اور عوام کو اپنے جائز موقف سے دستبردار کیا جاسکتا ہے ۔ اجلاس میں کشمیر اور کشمیر سے باہر کی مختلف جیلوں اور تھانوں میں ہزاروں کی تعداد میں مقید کشمیری سیاسی نظر بندوں کی اسیری کو انتقام گیرانہ سیاست کاری کا بدترین نمونہ قرار دیتے ہوئے ان کی غیر مشروط اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔