کشمیر : امداد میں امتیاز نہ ہو

کشمیر : امداد میں امتیاز نہ ہو
جموں و کشمیر میں امن کی طرف بڑھتی زندگی پر قدرت نے قیامت صغریٰ برپا کردی۔ اس سانحہ سے باہر نکلنے کیلئے ریاستی و مرکزی حکومت نے عوام کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تعریف سپریم کورٹ نے بھی کی ہے۔ البتہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق راحت کاری صرف سرینگر شہر تک محدود نہیں ہونی چاہئے۔ عدالت نے تمام سیلاب متاثرین کو راحت پہنچانے کی ہدایت دی ہے۔ ریاستی حکومت کو یہ احساس دلایا گیا ہیکہ سیلاب نے صرف سرینگر کو ہی تباہ نہیں کیا ہے بلکہ وادی کے دیگر اضلاع و دیہی علاقوں میں تباہی کی ایک دل ہلا دینے والی داستان چھوڑی ہے۔ عوام الناس کی بڑی تعداد کیلئے بچاؤ کاری اور راحت پہنچانے کا کام بلاشبہ مشکل کام ہے مگر سرحد پر حفاظت کے لئے تعینات ہمارے جواں بہادر سپاہیوں نے سیلاب سے متاثرین کی مدد کرنے انہیں بچانے کیلئے اپنی جان کی تک پرواہ نہیں کی ہے۔ فوج کا رول سرحد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ آفات سماوی کے واقعات میں عوام کی ہر ممکنہ مدد کرنا ہے تو یہ ان کے انسانی و قومی جذبہ کی شاندار علامت ہے جس کو ہر شہری سلام کرتا ہے۔ جہاں تک امداد کی تقسیم کا سوال ہے ملک بھر میں کئی فلاحی اداروں نے بھی اپنی طرف سے متاثرین کے لئے امداد کا انتظام کیا ہے۔ شہر حیدرآباد ہمیشہ ہی پریشان و مصیبت زدہ عوام کی مدد کیلئے آگے رہا ہے۔ شہریوں نے الحمدللہ ایک اپیل پر دامے درمے سخنے مدد کی ہے۔ شہر حیدرآباد کی کئی تنظیمیں کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے فکرمند ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہیکہ یہ امداد حقیقی مستحقین تک پہنچائی جائے خاص کر دور دراز والے علاقوں میں عوام تک امداد پہنچانا مشکل کام ہے۔ اس مشکل سے گذر کر ہی مستحقین و متاثرین کو درست مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ سرکاری سطح پر دی جانے والی امداد کے نتائج دیر سے سامنے آتے ہیں لیکن تنظیمی طور پر متاثرین تک پہنچنے والی امداد کو بروقت کارآمد بنانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے چیف جسٹس آر ایم لودھا کی زیرقیادت اس بات کی نشاندہی کی کہ سیلاب متاثرین کیلئے اٹھنے والے قدم میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے عموماً سرکاری سطح پر امدادی کاموں کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب متاثرین کی حالت ابتر ہوتی ہے اور بسا اوقات ضرورتمندوں تک امداد پہنچتی ہی نہیں یا ان تک پہنچنے والی امداد مرکز سے نکلنے والی رقم کا صفر فیصد ہوتی ہے۔ ایسے میں درمیانی آدمیوں کی مداخلت اور ہاتھ کی صفائی سے متاثرین کو کچھ نہیں ملتا۔ سرکاری امداد کے برعکس رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والوں کی کوشش قابل قدر اور مستحسن ہوتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے اضلاع سرینگر کے ساتھ ساتھ صوفیان، پلوامہ، گندربل، بارہمولہ اور بڈگام میں بھی سیلاب کی تباہی آئی ہے اس لئے مرکز و ریاستی حکومتوں کو اپنی امدادی کاموں کی توجہ صرف سرینگر تک ہی مرکوز نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بذات خود سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور تباہی کا مشاہدہ کیا ہے تو انہیں ریاستی حکومت کے ساتھ اپنی ہر ممکنہ مدد میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ کے ہمراہ سرینگر ایرپورٹ پر سیلاب متاثرین کیلئے اپنے دکھ کا جس طرح اظہار کیا تھا، اس سے انسانی جذبہ کو تقویت ملتی ہے۔ لہٰذا اس جذبہ کے آئینہ میں کشمیری عوام کی آخر تک مدد کی جانی چاہئے۔ اس سانحہ کے وقت مرکز اور ریاستی حکومتوں کو شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مسائل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ جموں و کشمیر کے دو علاقوں میں امداد کی رقم کی تقسیم میں بھی اگر امتیاز برتا گیا تو اسے ناپسندیدہ عمل کہا جائے گا۔ اس لئے حکام کو بھی چاہئے کہ وہ امداد کی تقسیم میں علاقہ واری امتیاز نہ برتیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت اور ہدایت کا مطلب یہی ہیکہ سیلاب متاثرین کو یکساں امداد اور راحت ملنی چاہئے۔ چیف جسٹس کے ریمارک قانون کی روشنی میں سرکاری عہدیداروں کو احتساب کی دعوت دیتے ہیں تو انسانی جذبہ کی روشنی میں تمام انسانوں کو رحم دلی اور اعانت کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرنے کا مشورہ ملتا ہے۔ عوام الناس کو خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد اور ریاستوں تلنگانہ و آندھراپردیش کے عوام کو اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ مسلمانوں کو اپنی خدمت گار تنظیموں کی کوششوں میں مدد کرنی چاہئے۔ سیلاب نے عوام کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے بس وہی عوام جانتے ہیں۔ ان کے سامنے خودغرض سیاستدانوں کی بے حسی انہیں اس مصیبت سے چھٹکارا پانے نہیں دے گی۔ اس لئے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ خانگی تنظیموں کی کوششوں کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ ماہرین موسمیات نے ہندوستان میں جموں و کشمیر جیسے سیلاب کی پیش قیاسی کی ہے۔ اس پیش قیاسی میں ایک انتباہ اور حکومت کیلئے چوکسی کا پیام بھی ہے۔ لہٰذا مرکز کو امکانی حالات سے نمٹنا نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے متبادل اقدامات کرنے ہوں گے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں خاص کر چوکسی ضروری ہے۔