کشمیریوں پر 22 فبروری کے بعد تشدد کا کوئی تازہ واقعہ نہیں

سپریم کورٹ کے اجلاس پر مرکزی حکومت کا بیان ۔ خودساختہ گروپس کی دھمکیوں اور حب الوطنی کے ثبوت طلب کرنے کاالزام
نئی دہلی ۔27 فبروری۔( سیاست ڈاٹ کام ) سپریم کورٹ نے آج نوٹ کیا کہ مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کیا ہے کہ کشمیریوں پر 22 فبروری کے بعد کسی تازہ پرتشدد واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔ سپریم کورٹ نے اس دن ایک درخواستِ مفادِ عامہ پر حکم جاری کیا تھا ۔ 22 فبروری کو ہدایت دی گئی تھی کہ چیف سکریٹریز اور ریاستی پولیس کے ڈائرکٹر جنرلوں کو بروقت اور ضروری کارروائی کرنی چاہئے تاکہ مبینہ سماجی بائیکاٹ اور کشمیریوں پر تشدد کے واقعات کا انسداد کیا جاسکے ۔ 14 فبروری کو پلوامہ میں دہشت گرد حملہ کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیرقیادت سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ کا حوالہ دیا کہ تشدد کا تازہ واقعہ کشمیریوں کے خلاف پیش نہیں آیا اور سپریم کورٹ کی وادی کشمیر کے شہریوں کی حفاظت کے احکام جاری ہونے کے بعد تازہ تشدد کا واقعہ پیش آنے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔ بنچ نے کہاکہ مزید احکام موجودہ مرحلے پر ضروری ہیں کیونکہ مرکزی حکومت نے حلف نامہ پیش کیاہے اور درخواست مفاد عامہ جو قانون داں طارق ادیب کی جانب سے پیش کی گئی تھی کی سماعت ملتوی کردی ۔ عدالت نے ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ کشمیریوں کا تحفظ کیا جائے اور اندرون ایک ہفتہ اس کا جواب طلب کیا تھا لیکن تاحال کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو دھمکی دینے یا کشمیریوں پر تشدد کے کسی واقعہ کے پیش آنے کی عدالت کو اطلاع دی جائے ۔ پلوامہ کے 14 فبروری دہشت گرد حملے میں 40 سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوگئے تھے ۔ عدالت نے دریافت کیا تھا کہ اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد کشمیریوں پر حملوں کے کتنی واقعات ہوئے ؟ یہ استفسار مرکزی حکومت اور تمام ریاستی حکومتوں سے کیا گیا تھا ۔ عدالت نے تمام مرکزی وزارتوں کو مشورہ دیا تھا کہ چیف سکریٹریوں اور ریاستی پولیس کے ڈائرکٹر جنرلوں کو 22 فبروری کے بعد کشمیریوں پر تشدد کے کسی بھی واقعہ کی اطلاع وقفہ وقفہ سے دی جاتی رہے ۔

عدالت نے پولیس عہدیداروں کو ہدایت دی تھی کہ گائے کے تحفظ کے بہانے تشدد اور زدوکوب کے ذریعہ کسی کے ہلاکت کے واقعہ کی بھی بروقت اطلاع دی جائے ۔ پولیس کے ڈائرکٹر جنرلوں کو نوڈل آفیسر مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ کشمیریوں پر ہجومی تشدد کے واقعات سے نمٹیں اور اس کی سپریم کورٹ کو اطلاع دیں۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا تھا کہ وزارت داخلہ ایسے واقعات کی تفصیل سے تشہیر کیوں کرتی ہے تاکہ کشمیری عوام تک رسائی حاصل ہوسکے ۔ اُن پر حملے کئے جائیں ، اُن کا اغواء کیا جائے ، سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا اور دھمکیاں دی جائیں ؟ مرکز کے علاوہ مہاراشٹرا ، پنجاب ، یوپی ، بہار ، جموں و کشمیر ، ہریانہ ، میگھالیہ ، مغربی بنگال ، چھتیس گڑھ ، اُتراکھنڈاور دہلی کو دھمکی ، حملوں اور بائیکاٹ کے واقعات کے انسداد کے لئے ہدایات دی گئیں تھیں۔ درخواست مفاد عامہ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ وادی کشمیر کے طلبہ کو مختلف تعلیماتی اداروں کی جانب سے ملک گیر سطح پر داخلہ دینے سے انکار کیا جارہاہے اور عہدیدار کو اس سلسلے میں فوری ہدایات دی جائے تاکہ وہ کارروائی کرسکیں۔ وینو گوپال نے کہاکہ وزارت نے ضروری مشورہ تمام ریاستوں اور مرکز زیرانتظام علاقوں کو اس مسئلہ پر 17 فبروری کو روانہ کردیا ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کا مشورہ دیاگیا تھا ۔ درخواستِ مفادِ عامہ میں مرکز اور دیگر عہدیداروں سے ایسا مشورہ دینے کی خواہش کی گئی تھی ۔ درخواست میں فوری ملک گیر سطح پر ہیلپ لائین قائم کرنے اور نوڈل آفیسر کے تقررات کی تفصیلات عدالت میں داخل کرنے کی ہدایت دینے کی بھی گذارش کی تھی ۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ پلوامہ دہشت گرد حملے کے بعد مسلمانوں اور کشمیریوں پر تشدد کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے اور مختلف سیاسی قائدین سے نگرانکار گروپ اُن کی نفرت انگیز تقریروں کے سلسلے میں حب الوطنی کا ثبوت طلب کررہے ہیں اور اُن کو دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ یہ صورتحال ملک گیر سطح پر پائی جاتی ہے ۔