نئی دہلی، 3 مئی (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج یہ خیال ظاہر کیاہے کہ ایک انہدامی مہم کے دوران کسولی میں ایک زمین ہتھیانے والے کے ہاتھوں ایک خاتون افسر کا مبینہ قتل اس لئے ہوا کہ حکومت نے غیر قانونی تعمیرات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں اور قانون شکنی کرنے والے قتل تک پر اتر آئے ہیں۔جسٹس مدن بھیم راؤ لوکور کی قیادت والی عدالتی بنچ نے جس میں جسٹس دیپک گپتا بھی شامل تھے ، کہا ہے کہ تعمیراتی منصوبہ بندی پر عمل کرانے والی خاتون کا قتل اس لئے نہیں ہوا کہ وہ قانون کی پیروی کررہی تھی بلکہ وہ اس لئے ماری گئیں کہ ریاستی حکومت نے بروقت کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ججوں نے کہا کہ یہ قتل کسی عدالتی حکم پر عمل نہ کئے جانے سے نہیں ہوا بلکہ اس لئے ہوا ہے کہ ملکی قانون ہی نافذ نہیں ہے ۔ بنچ نے کہا ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتی جو قانون توڑتے ہوں۔ عدالت عظمی نے کل اپنے طور پر میڈیا کی اس رپورٹ کا نوٹس لیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک خاتون افسر کا مبینہ طور پر اس لئے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کررہی تھی۔ وہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے احکامات پر بھی عمل کرارہی تھی۔ ریاستی حکومت نے عدالتی بنچ کو باخبر کیا ہے کہ مقتولہ افسر کی فیملی کو پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں گے ۔ قوانین کے عدم نفاذ پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے عدالتی بنچ نے کہا کہ ”آپ (حکومت ) غیر قانونی تعمیر کی اجازت دیتے ہیں او رجب کوئی شخص اپنی ساری دولت کسی تعمیر میں لگادیتا ہے تو وہ اس کے تحفظ کے لئے بے چین ہوجاتا ہے نتیجے میں قتل کے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ معاملے کی آئندہ ماہ مزید سماعت ہوسکتی ہے ۔ عدالت عظمی نے حکومت سے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سرکاری افسران کو کوئی ہراساں نہیں کرے اور ساتھ ہی ساتھ جائے واقعہ کو بھی محفوظ بنایا جائے ۔