سلوک اس کا مرے ساتھ‘ کاروباری ہے
اب اس کو دوست سمجھنا‘ فریب کاری ہے
کسانوں کے مسائل پر سیاست
جس وقت سے نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت نے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے اپنے مقاصد و مفادات کی تکمیل کیلئے نت نئے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ جس وقت کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کو سیدھے سادھے انداز میں حل کرنے اور اس کے اعادہ کو روکنے کیلئے اقدامات کی بجائے اسے مزید پیچیدہ بناتے ہوئے اپنے مفادا ت کی تکمیل کرنا مرکزی حکومت کا شیوہ بن گیا ہے ۔ حکومت میں رہتے ہوئے ہر مسئلہ پر سیاست کرنا اس ملک کے جمہوری اصولوں اور روایات کے منافی اقدام ہے اس کے باوجود حکومت اپنے وقار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف سیاست پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجود نریندر مودی نے بیرونی ملک کے دورہ پر بیرونی ملک کی سرزمین پر سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس موقع پر انہوں نے صرف اپنا سیاسی فائدہ پیش نظر رکھا اور اپنے ریمارکس سے ملک کی امیج متاثر ہونے کے اندیشوں کو نظر انداز کردیا ۔ اب حصول اراضیات بل پر بھی حکومت سیاست میں مصروف ہوگئی ہے ۔ وہ کسانوں کی اراضیات چھیننے کے منصوبہ پر ان کی ہمدردی کا ناٹک کرتے ہوئے عمل آوری کرنا چاہتی ہے ۔ ماضی کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب کسانوں کی اراضیات کو مختلف بہانوں سے حاصل کرتے ہوئے انہیں بڑے کارپوریٹس اور تجارتی گھرانوں کے سپرد کردیا گیا تھا ۔ ان کارپوریٹس نے جس مقصد کیلئے کسانوں کو بیدخل کرتے ہوئے اراضیات حاصل کی تھیں انہیں فراموش کردیا اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کیا ۔ ملک میں اس قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ راہول گاندھی نے طویل تعطیلات سے واپسی کے فوری بعد کسانوں کی ریلی سے خطاب کیا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ دہلی کی برسر اقتدار عام آدمی پارٹی نے بھی اس پر احتجاج منظم کیا اور اس احتجاجی ریلی کے دوران ایک کسان نے خود کشی کرلی ۔ اب اس واقعہ پر سیاست شروع ہوگئی ہے ۔ دہلی میں لا اینڈ آرڈر اور پولیس مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اس واقعہ کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔
احتجاجی ریلی کے دوران ایک کسان کی خودکشی کے مناظر کو حالانکہ ٹی وی چینلوں پر بھی دکھایا گیاجس کے نتیجہ میں عوام کو تقریبا تمام صورتحال سے آگہی ہے اس کے باوجود دہلی پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں کسان کی خود کشی کیلئے عام آدمی پارٹی کے قائدین اور ورکرس کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا کہ ان قائدین اور ورکرس نے کسان کو خود کشی کیلئے اکسایا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس نے کسان کو خود کشی سے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی راہ میں عام آدمی پارٹی کے ورکرس اور قائدین نے رکاوٹیں پیدا کیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت نے اب اپنی سیاسی حریف کے خلاف لا اینڈ آرڈر کی ذمہ دار ایجنسی کو بھی لا کھڑا کردیا ہے ۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے پولیس کے ترجمان کی طرح بات کرتے ہیں اور اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ طرز عمل ایک وزیر داخلہ کیلئے مناسب نہیں ہے جنہیں پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے کام کاج پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہی اس کو سیاسی رسہ کشی کا حصہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں سے اختلافات اور انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنانا ان پر الزامات عائد کرنا سیاست کا حصہ ہے لیکن اگر اس میں نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور خاص طور پر پولیس کو بھی فریق کے طور پر شامل کردیا جاتا ہے تو یہ وفاقی حکمرانی کے اصولوں اور ضوابط کے یکسر خلاف اور مغائر ہے ۔ اس طرح کی مثالیں ماضی میں نہیں ملتیں ۔ یہ بی جے پی زیر قیادت حکومت کی نئی کوشش ہے ۔
عام آدمی پارٹی حکومت کی جانب سے اس واقعہ کی مجسٹریٹ کے ذریعہ تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے لیکن دہلی پولیس اس کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کام حکومت دہلی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ۔ اس طرح دہلی پولیس عآپ حکومت کی مخالف جماعت کے طور پر سامنے آگئی ہے ۔ حکومت کو اس کے دائرہ اختیار اور کاموں کے تعلق سے یاد دہانی مرکزی حکومت کرواسکتی ہے ۔ پولیس کو اس طرح کے رویہ سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ پولیس کی اس اقدام پر سرزنش کرنے کی بجائے وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں اس کے ترجمان کی طرح بیان دیتے ہیں جو ایک ایسی روش ہے جو جمہوری ڈھانچہ کیلئے اور وفاقی حکمرانی کے اصولوں کے حق میں بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔ کسی مسئلہ کو اس کی نوعیت کے مطابق حل کرنے پر توجہ کرنے کی بجائے خالص سیاست کی جا رہی ہے اور اس طرز عمل سے مکمل گریز کیا جانا چاہئے۔