کسانوں کی آمدنی نہیں بلکہ خودکشیوں میں دُوگنا اضافہ

مودی اور کے سی آر کے دعوے زمینی حقائق سے متضاد ، اعداد کی پردہ پوشی

حیدرآباد۔24جون(سیاست نیوز) ملک میں کسانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنے والی حکومت ہند اور حکومت تلنگانہ کے اعلانات میں کس حد تک صداقت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں کسانوں کی معاشی حالت کیا ہے اور کسان کس طرح سے خودکشی کر رہے ہیں! وزیر اعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ دونوں ہی کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو نہ تلنگانہ میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی ملک کی دیگر ریاستوں میں کسانوں نے خودکشی کرنا بند کیا ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے زرعی اراضیات کے مالکین کو سالانہ معاوضہ کی اسکیم شروع کی گئی لیکن اس اسکیم کی جملہ رقم کا جائزہ لیا جائے تو کسان اس رقم سے ایک یا دو ماہ کے اخراجات ہی مکمل کرپائے گا لیکن زرعی مزدور کو اس اسکیم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ تلنگانہ علحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد سے ملک میں کسانوں کی خودکشی کرنے والی ریاستوں میں دوسرے نمبر پر موجود ریاست بنا ہوا ہے ۔ علحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد ریاست میں کسانوںکی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن حقیقی اعداد و شمار کو حکومت کی جانب سے بڑے مثبت انداز میں چھپاتے ہوئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے متعدد اقدامات کر رہی ہے لیکن حقیقی اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو تلنگانہ ملک میں دوسری ایسی ریاست ہے جہاں کسان سب سے زیادہ خودکشی کر رہے ہیں۔ آزادانہ تنظیموں اور اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق تلنگانہ میں سال 2015کے دوران 1358 کسانوں اور زرعی مزدوروں نے معاشی مسائل کے سبب خودکشی کی ہے جبکہ سال 2016کے دوران خودکشی کرنے والوں کی تعداد 632رہی اور سال گذشتہ یعنی 2017کے دوران 774کسانوں کی خودکشی کی اطلاع ہے جن میں کسانوں کے علاوہ زرعی مزدور بھی شامل ہیں۔ جاریہ سال کے دوران بھی کسانوں کی خودکشی کے 17 سے زیادہ واقعات کی توثیق ہوچکی ہے لیکن اب تک حکومت کی جانب سے صرف یہی کہا جا رہاہے کہ حکومت تلنگانہ کسانوں کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں سنجیدہ اقدامات میں مصروف ہے جبکہ زرعی مزدور جو حقیقت میں کسان ہے اور کاشتکاری کرتا ہے اس کا کہناہے کہ حکومت کی اسکیم سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اب بھی مزدور ہے جبکہ زرعی اراضیات کے مالکین کو حکومت کی جانب سے معاوضہ دیا جا رہاہے اور ان کی اراضیات پر کی جانے والی کاشت کی خریداری کا فائدہ بھی انہیں ہی حاصل ہورہاہے۔