کر بھلا تو ہو بھلا

خان عبدالرحمن ایک رحم دل کسان تھا۔ ایک دن اسے جنگل میں ایک زخمی فاختہ نظر آئی۔ کسان اسے اپنے گھر لایا، اس کی تیمار داری کی ، فاختہ نے کسان سے کہا پہاڑ کے دامن میں آم کا ایک درخت ہے اس کے کھوکھلے تنے میں تمہیں بیج مل جائیں گے ۔ خان بہت خوش ہوا۔ دو دن کے بعد درخت کے پاس پہنچا۔ خان نے کھوکھلے تنے میں جھانکا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
ا تنے میں گیہوں کے دانوں کے ساتھ قیمتی موتی بھی نظر آئے۔ اس نے دانے اٹھالئے اور کہا ’’دولت تمام برائیوں کی جڑ ہے، مجھے نہیں چاہئے، ایسی دولت جو مفت میں حاصل ہو‘‘۔ خان واپس آیا۔ فاختہ نے کہا موتی کیوں نہیں لائے‘‘۔’’مجھ اکیلی جان کیلئے موتی کس کام کے ؟ کیا ان سے بھوک پیاس مٹ سکتی ہے۔ گیہوں کے دانے میرے لئے کافی ہیں، انہیں بو کر فصل اُگاؤں گا‘‘۔’’تم بہت بھولے ہو، تمہاری نیکی کا بدلہ ضرور دوں گی‘‘۔فاختہ اُڑی اور جنگل سے ایک انگوٹھی لے آئی، ’’میری طرف سے یہ تحفہ قبول کرو، اسے پہن کر جس چیز کی خواہش کرو گے فوراً حاضر ہوجائے گی‘‘۔ خان نے انگوٹھی پہن لی۔ اس میں سے چمک دار شعائیں نکلنے لگیں۔ وہ چونک پڑا۔ کچھ دیر بعد جب اس کے حواس بجا ہوئے تو فاختہ کی بات آزمانے کیلئے کہا‘‘ مجھے تھوڑا سا دودھ اور نان چاہئے‘‘۔ خان کی زبان سے الفاظ نکلے ہی تھے کہ تازہ دودھ کا پیالہ اور گرم نان اس کے سامنے آگئیں۔ خان نے خوش ہوکر کھایا اور فاختہ کو بھی شریک کیا۔ فاختہ نے رحم دل خان کو طلسمی انگوٹھی کا تحفہ دیا اور جنگل میں غائب ہوگئی۔ اب خان عبدالرحمن بہت خوشحال تھا کیونکہ اس نے بھلائی کا کام کیا تھا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں: ’’کر بھلا تو ہو بھلا!‘‘