کرکٹ بورڈ صدارت میں تبدیلی

ہر نظام ہوتا ہے ذہنیت پہ ہی قائم
شخصیت بدلنے سے فرق کچھ نہیں ہوتا
کرکٹ بورڈ صدارت میں تبدیلی

ویسے تو کرپشن ہندوستان میں زندگی کا جز بن گیا ہے ۔ سیاست دان ہوں کہ سرکاری عہدیدار ‘ معمولی ملازم ہوں کہ کرکٹرس سبھی کرپشن کی لعنت کا شکار ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف جب ملک میں مہم شروع ہوئی تھی تب سارے ملک میں ایک لہر سی پیدا ہوگئی تھی اور ہندوستان بھر کے عوام کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ ملک کے کونے کونے میں کرپشن کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا اور عوام نے اپنی ناراضگی اور برہمی ظاہر کی تھی ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں کرپشن داخل ہوگیا ہے ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہندوستان میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف کرپشن رہ گیا ہے ۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کرپشن ‘ دفاعی معاملتوں کے نام پر کرپشن ‘ جانوروں کے چارے میں کرپشن ‘ دواخانوں میں ادویات کی خریدی میں کرپشن ‘ ملک کی سرحدات کی حفاظت کرتے ہوئے جان قربان کردینے والے فوجیوں کیلئے تابوت خریدنے میں کرپشن ‘ دولت مشترکہ کھیلوں کے انعقاد میں کرپشن ‘ اسٹیڈیمس کی تعمیر میں کرپشن ‘ اسپیکٹرم الاٹمنٹ میں کرپشن ‘ کوئلہ الاٹمنٹ میں کرپشن ‘ ملک پر جان قربان کردینے والے فوجیوں کے لواحقین کیلئے مکانات کی تعمیر میں کرپشن ‘ پولیس میں کرپشن ‘ سیاست میں کرپشن ‘ انتظامیہ میں کرپشن ‘ کھیلوں میں کرپشن ۔ ہندوستان میں شائد ہی کوئی شعبہ حیات ایسا ہو جس میں کوئی کرپشن نہ ہو ۔ اسی طرح کرکٹ کا کھیل بھی کرپشن کا شکار ہوگیا ہے ۔ اب نہ صرف میچس فکس ہوتے ہیں بلکہ ہر گیند پر کرپشن ہونے لگا ہے ۔ ان سارے امور نے جنٹلمنس گیمس یعنی کرکٹ کو بھی آلودہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کرکٹ میں کرپشن اور بدعنوانیوں کے اکا دوکا واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اب تو یہ عام بات ہوگئی ہے ۔ کھیل میں جگہ جگہ کرپشن ہے ۔ میچس کے انعقاد میں کرپشن ہے تو میچس کی اسپانسر شپ کے الاٹمنٹ میں کرپشن ہے ۔ ٹکٹس کی فروخت میں کرپشن ہے تو نشریاتی حقوق میں کرپشن ہے ۔ غرض یہ کہ کرکٹ کے بھی ہر شعبہ میں کرپشن اور بدعنوانیاں اپنی جگہ بناچکی ہیں۔ کرکٹ کے منتظمین اور کرکٹ کھلاڑی خود جب اس طرح کی بدعنوانیوں میںملوث ہونے لگیں تو پھر اس کھیل کا بھی اللہ ہی حافظ ہے اور اس کھیل سے کرپشن کی لعنت کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا ۔
جس وقت سے کرکٹ میں آئی پی ایل کی شروعات ہوئی ہے اس وقت سے کرکٹ کھیل نہیں بلکہ ایک کارپوریٹ ٹورنمنٹ بن گیا ہے ۔ بڑی بڑی کمپنیاں اور بڑی بڑی ہستیاں اس کھیل سے جڑ گئی ہیں اور یہ لوگ صرف اور صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ ان کیلئے صحیح اور غلط کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ ان کیلئے کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ صرف پیسہ ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آئی پی ایل کی شروعات کرنے والے اس وقت کے آئی پی ایل کمشنر للت مودی پر کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ۔ دوسری ٹیموں کے انتظامیہ پر بھی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے اور گذشتہ سال کے ٹورنمنٹ نے تو سارے ملک اور ساری دنیا کے کرکٹ شائقین کو دہلا کر رکھ دیا ۔ کرکٹرس اور سٹہ بازوں کا تال میل اور تحفے تحائف کا تبادلہ عام بات ہوگئی ہے ۔ اس میں بھی ایک پہلو یہ ہے کہ جن کرکٹرس کے کوئی سرپرست نہیں ہوتے وہ بآسانی پھنس جاتے ہیں اور جنہیں کسی بڑی شخصیت کی تائید حاصل ہوتی ہے وہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی بڑی آسانی کے ساتھ سزاوں سے بچ جاتے ہیں اور ان کے معاملات کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بد دیانتی کی ایک اور مثال ہے ۔ اس طریقہ کار کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ امتیاز کا خاتمہ ہوسکے اور جو کوئی بدعنوانیوں میں ملوث پایا جائے اس کے ساتھ یکساں موقف اختیار کرتے ہوئے اسے کیفر کردار تک پہونچایا جاسکے ۔
آئی پی ایل اسپاٹ فکسنگ اور بٹنگ معاملہ میں سپریم کورٹ نے اب ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے کرکٹ بورڈ کے سربراہ سرینواسن کو عہدہ صدارت سے علیحدہ کردیا ہے اور سابق کپتان سنیل گواسکر کو بورڈ کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے ۔ اس سے قبل کپل دیو مسلسل اس بات کی وکالت کرتے آ رہے ہیں کہ کرکٹ امور سابقہ کرکٹرس کے ہاتھ ہی میں ہونے چاہئیں ۔ اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو کرکٹ میں بدعنوانیوں کو ختم کرنے میں کچھ حد تک ہی صحیح مدد ضرور مل سکتی ہے ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے سنیل گواسکر کو بورڈ کی ذمہ داری سونپی ہے تو یہ ایک درست اور بہتر اقدام ہے ۔ اس سے کرکٹ کے کھیل کے تعلق سے عوام میں جو شبیہہ بن گئی ہے اس کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ کرکٹ کے امور میں شفافیت لاتے ہوئے اسے ایک بار پھر شریفانہ کھیل کا درجہ دلایا جاسکتا ہے ۔ کھیل میں نئی اختراع اچھی بات ہے لیکن اس اختراع کے ذریعہ بدعنوانیوں اور کرپشن کا موقع فراہم کرنا خود کرکٹ کیلئے اچھا نہیں ہوگا ۔ سنیل گواسکر کو اب اپنے کرکٹ کیرئیر کی طرح بورڈ میں بھی مثال قائم کرتے ہوئے شفافیت لانی چاہئے ۔