کرپشن کے خاتمہ کا ادعا

ہندوستان میں کرپشن سے ہر کوئی واقف ہے ۔ شائد ہی کوئی سطح ایسی ہوگی جس میں کرپشن نہ ہوتا ہو ۔ یہاں ہر سطح پر اور زندگی کے ہر شعبہ میں کرپشن موجود ہے اور اس کا وقفہ وقفہ سے ہر سطح پر اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ چند برس قبل جب سماجی کارکن انا ہزارے کی قیادت میں کرپشن کے خلاف مہم شروع ہوئی تھی تو سارا ہندوستان اس کی تائید میں اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ موجودہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی عوامی زندگی کی شروعات بھی اسی مہم سے ہوئی تھی ۔ وہ انا ہزارے کے بعد دوسرے اہم ترین مخالف کرپشن لیڈر بن کر ابھرے تھے اور شائد اسی مقبولیت کا نتیجہ تھا انہوں نے سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھی کرپشن کے خلاف جدوجہد کے نعرہ پر ہی انہیں مقبولیت اور عوام کی تائید حاصل ہوئی اور وہ آج ایک منفرد اور مثالی کامیابی کے ذریعہ دہلی کی چیف منسٹری کی گدی پر براجمان ہیں۔ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہوگی جس میں کرپشن نہیں ہوگا اور جس کے قائدین کرپشن میں ملوث نہ ہوں ۔ ہندوستان کے عوام نے انا ہزارے کی مہم کے دوران ہی کرپشن سے اپنی بیزارگی کو واضح کردیا تھا اور ملک کے تقریبا ہر شہر اور گاوں میں اس مہم کی تائید میں مظاہرے اور پروگرامس منعقد ہوئے تھے ۔ آج بھی ہندوستان کے عوام کرپشن سے بیزار ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ عمل میں آئے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرپشن کو ختم کرنا ہندوستان جیسے ملک میں تقریبا نا ممکن ہے ۔ یہاں کرپشن اس حد تک سرائیت کر گیا ہے کہ اس کو ختم کرنا مستقبل قریب میں تو ممکن نظر نہیں آتا ۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے اب یہ ادعا کیا ہے کہ ملک میں کرپشن ہمیشہ کیلئے رک گیا ہے ۔ ویسے تو وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا ان کی کابینہ کے وزرا ہوں وہ از خود اپنی اور اپنی حکومت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ تقریبا ہر مسئلہ پر وہ خود کو اور حکومت کو شاباشی دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ۔ چاہے عوام اس شاباشی کو قبول کریں یا نہ کریں لیکن ان کا اپنا انداز تشہیر ہے اور وہ اسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اب وزیر اعظم نے کرپشن کو ہمیشہ کیلئے روک دینے کا ادعا کیا ہے ۔ اس دعوی میں کس حد تک سچائی ہے اس سے سارا ملک واقف ہے اور ملک کے عوام بھی اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔

ملک میں کرپشن جس سطح تک سرائیت کر گیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس لعنت کو ختم کرنا تقریبا نا ممکن ہوگیا ہے ۔ ہاں اس پر سنجیدگی سے کوشش کی جاتی ہے ‘ سماج میں اس تعلق سے شعور بیدار کیا جاتا ہے اور کرپشن میںملوث افراد کے خلاف سخت سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کی سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے تب بھی اس لعنت کو ختم تو نہیں کیا جاسکتا ہاں اس پر بڑی حد تک قابو ضرور کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم اپنے ملک میں اس پر قابو ہی کرلیں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی اور ترقی کا ہندوستان کا سفر اپنی رفتار سے بہت تیز ہوجائیگا اور ملک کے عوام کو اس کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع ضرور مل سکتا ہے ۔ وزیر اعظم بھلے ہی یہ دعوی کر رہے ہوں کہ کرپشن کو موقوف کردیا گیا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج بھی کرپشن کا سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے ۔ چاہے وہ للت مودی سے تعلقات کی وجہ سے انہیں بیرون ملک سفر کی سہولتیں فراہم کرنا ہو یا پھر گجرات میں منظر عام پر آیا اراضی الاٹمنٹ کا اسکام ہو ۔ گجرات میں خود بی جے پی کی ہی حکومت ہے اور یہ مودی کی آبائی ریاست ہے ۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں کی ریاستی وزیر پنکجا منڈے کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ اب بی جے پی اگر ان افراد کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے ان الزامات کو سرے سے مسترد کردیتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ کرپشن ہوا ہی نہ ہو ۔ جب تک ایسے معاملات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ ہوں اس وقت تک کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت کا ابتدائی دورانیہ جو ہوتا ہے وہ ضرور قدرے شفاف دکھائی دیتا ہے لیکن ایک وقت گذرتے گذرتے ایسے معاملات اور اسکامس سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ یو پی اے دور حکومت کی پہلی معیاد میں کرپشن کے محاذ پر حالات قدرے بہتر تھے تاہم جب دوسری معیاد کیلئے یو پی اے حکومت قائم ہوئی تو ملک اسکامس سے لرز کر رہ گیا تھا ۔ آج بھی کرپشن کا سلسلہ جاری ہے بھلے یہ اڈانی یا دوسرے کارپوریٹس کو من مانی انداز میں سرکاری بینکوں سے یا حکومت کی ضمانت سے قرض کی فراہمی ہو یا دوسرا کوئی اور طریقہ ہو ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لعنت کی سنگینی اور اس کے منفی اثرات کو سمجھا جائے اور اس پر محض خوش فہمیوں میں ملوث رہنے کی بجائے اس کو حقیقت میںقابو میں کرنے کیلئے پوری دلچسپی اور غیر جانبداری سے اقدامات کئے جائیں۔