مل گیا جب سے اشارہ مجھ کو چشم ناز کا
بڑھ گئے ہیں حوصلے میرے جنون شوق کے
کرن کمار ریڈی کا باغیانہ شوق
آندھراپردیش کے نگرانکار چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے کانگریس کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کو وسعت دینے کی بظاہر کوشش شروع کی ہے۔ کانگریس سے برطرف ارکان کو درست بنانے اور انہیں اپنی صف میں شامل کرنے کی مشاورت کے درمیان یہ بات غیر واضح ہیکہ آیا کرن کمار ریڈی جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک منصوبہ بند پالیسی کا حصہ ہے۔ قائدین اور چیف منسٹر کے مخالفین کا یہ خیال بھی غور طلب ہیکہ کرن کمار ریڈی جو کچھ کررہے ہیں دراصل وہ دہلی میں لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق ہی کام کررہے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کانگریس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے لیڈر کو اپنے علاقہ سیما۔ آندھرا میں عوام کے سامنے ووٹ مانگنے کی تیاری کرنی ہے۔ قومی سطح پر ہو یا ریاستی سطح پر کانگریس کی تاریخ اور باغیانہ سرگرمیوں کے درمیان لیڈروں کو بہت کم ہی کامیابی ملی ہے۔ کرن کمار ریڈی کے سیاسی مستقبل کو ٹاملناڈو میں کانگریس کے سینئر لیڈر موپنار کے سیاسی حالات سے تعبیر کیا جائے تو اس میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوگا۔ ٹاملناڈو میں چدمبرم نے بھی کانگریس سے بغاوت کی تھی بعدازاں اپنی پرانی پارٹی میں واپسی کیلئے سیاسی مواقع تلاش کئے گئے یا مواقعوں کوتراشا گیا۔ یہ وقتی حالات پر منحصر تھا۔ کرن کماریڈی بھی آئندہ چند دنوں میں کانگریس کے باغیوں کا ایک گروپ تشکیل دے کر انتخابی حکمت عملی تیار کرلیں گے لیکن انتخابات کے بعد کیا ہوگا اس کی تصویر ابھی سے دکھائی جارہی ہے کہ کرن کمار ریڈی مابعد انتخابات کانگریس کیلئے سیما۔ آندھرا کا اہم مہرہ ثابت ہوں گے۔ کسی بھی لیڈر کو یہ حق حاصل ہیکہ وہ اپنی شناخت بنائے اپنی نئی پارٹی قائم کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہیکہ وہ اپنے رائے دہندوں کی درست خدمت کرے، جس پارٹی کے خلاف اس نے بغاوت کی ہے اس کے تمام کرتوتوں کو عوام کے سامنے آشکار کرے۔ سیما۔ آندھرا کی صورتحال اس وقت پیچیدہ ہے عوام کے احساسات کو سمجھنے کیلئے وقت لگے گا۔ پارلیمنٹ کی جانب سے ری آرگنائزیشن بل کی منظوری کے بعد بل کو صدرجمہوریہ کی جانب سے توثیق ہونے والی ہے۔
ایک نئی پارٹی کیلئے موجودہ ماحول سازگار نہیں ہوسکتا۔ عین انتخابات کے وقت کرن کمار ریڈی کے لئے نئی پارٹی کا قیام کسی صورت معاون نہیں ہوگا۔ اس لئے ان کے بعض بہی خواہوں نے انہیں بی جے پی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ اگر بی جے پی کی جانب سے ہوگیا تو ان کا سیکولر کردار مسخ ہوجائے گا۔ سیما۔ آندھرا میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال کا صرف انتظار کرو اور دیکھو کے متقاضی ہے۔ ان علاقوں میں تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کو بھی رائے دہندوں کی حمایت حاصل ہونے کا امکان ہے۔ کانگریس کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔ ایسے میں کرن کمار ریڈی کو کانگریس سے بغاوت کا صلہ ملے گا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ برسوں تک کانگریس کے سایہ میں پروان چڑھنے والے کرن کمار ریڈی کو ریاستی سطح پر اس وقت نمایاں حیثیت حاصل ہوگی جب وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت واقع ہوگئی تھی۔ اگرچیکہ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد کے روشیا نے اپنے اقتدار کو بحسن و خوبی چلانے کی کوشش کی لیکن تلنگانہ احتجاج سے نمٹنے میں ان کی ناکامی کے باعث کرن کمار ریڈی کو ان کی جگہ بٹھانے کی راہ ہموار کی گئی۔ دراصل کرن کمار ریڈی نے 25 نومبر 2010ء کو کانگریس ہائی کمان کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آندھراپردیش کے چیف منسٹر عہدہ کے لئے اصل دعویدار مرکزی وزیر جئے پال ریڈی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اے آئی سی سی ارکان پرنب مکرجی اور غلام نبی آزاد نے آندھراپردیش کے 16 ویں چیف منسٹر کی حیثیت سے کرن کمار ریڈی کو نامزد کیا تھا لیکن اس وقت کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کرن کمار ریڈی متحدہ آندھراپردیش کے آخری چیف منسٹر ہوں گے۔ اپنی کابینہ میں خود اپنے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام کرن کمار ریڈی کو اپنی کابینی رفقاء کے خلاف سی پی آئی کے مقدمات کا سامنا بھی تھا۔ ایسے میں تلنگانہ احتجاج ان کے اقتدار کو کمزور کرنے کا موجب بنا اور بتدریج وہ حکمرانی کے فرائض سے دست کش ہوتے گئے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور اپنے والد امرناتھ ریڈی کی طرح وہ اپنے سیاسی مستقبل مستحکم نہیں کرسکے۔ پی وی نرسمہا راؤ کابینہ میں وزیر رہنے والے امرناتھ ریڈی نے اپنے فرزند کو کرکٹ کے میدان سے نکال کر سیاسی میدان میں قسمت آزمانے کی ترغیب دی جس پر وہ کامیاب بھی رہے۔ ایک کے بعد ایک سیاسی کامیابیوں کے بعد کرن کمار ریڈی کانگریس کیلئے اہم لیڈر بن گئے۔ اس سیاسی سفر کا انجام تلخیوں اور اختلافات پر آ کر ختم ہوا ہے تو وہ نئی پارٹی بنا کر اپنی کانگریس چھاپ کو کس حد تک چھپانے میں کامیاب ہوں گے ان کے باغیانہ شوق کا حوصلہ بڑھانے میں کون کتنا کردار ادا کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔