کرن کمارریڈی کی نئی سیاسی جماعت

شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلادیا کبھی اک چراغ بجھادیا
کرن کمارریڈی کی نئی سیاسی جماعت
آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے بھی بالآخر نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ کرن کمار ریڈی نے آندھرا پردیش کی تقسیم اور تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے فیصلے کے خلاف کانگریس پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور وہ چیف منسٹر کے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے تھے ۔ انہوں نے شدت کے ساتھ ریاست کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کی تھی اور سر عام کانگریس کی صدر سونیا گاندھی پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کر رہے تھے ۔ کانگریس پارٹی نے تاہم ان کے ساتھ انتہائی نرمی والا رویہ اختیار کیا تھا اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے سے گریز کیا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ جب انہوں نے وزارت اعلی اور کانگریس پارٹی دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی تو کانگریس نے اس وقت بھی ان پر تنقید نہیں کی اور انہیںایک تجربہ کار لیڈر قرار دیتے ہوئے پارٹی میں دوبارہ واپسی کا خیر مقدم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ کرن کمار ریڈی تاہم ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ انہوںنے اپنے حامیوں ‘ کانگریس سے خارج کردہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے علاوہ ریاست کی تقسیم کے مخالفین کے ساتھ مسلسل مشاورت کی تھی اور حالات کا جائزہ لیتے رہے تھے ۔ معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے نئی پارٹی کا اعلان کرنے سے قبل اس کے امکانات کے تعلق سے سروے بھی کروائے تھے ۔ انہیں سروے رپورٹس اور حامیوں و ساتھی قائدین کی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے علیحدہ جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ تلگو عوام کی عزت نفس اور وقار کو بحال کرنا چاہتے ہیں جو تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے ذریعہ متاثر ہوکر رہ گیا ہے ۔

انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کی نئی سیاسی جماعت کی پالیسیوں اور منصوبوں کا راجمنڈری میں 12 مارچ کو ہونے والے ایک جلسے میں اعلان کیا جائیگا ۔ وہ اس دوران سیما آندھرا کے عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے منصوبہ سازی کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ وہ سیما آندھرا ہی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور وہیں اپنے سیاسی منصوبوںکو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ابتداء میں تو کسی اور جماعت سے اتحاد یا مفاہمت کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے ۔ ویسے کوئی دوسری جماعت بھی شائد ابتداء میںکرن کمار ریڈی کی جماعت سے مفاہمت کیلئے تیار نہیں ہوگی ۔
جس وقت سے کرن کمار ریڈی نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے یہ امکانات ضرور تھے کہ وہ نئی سیاسی جماعت قائم کرینگے ۔ خود انہوں نے بھی اس تعلق سے مبہم سے اشارے بھی دئے تھے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی نئی جماعت سیماآندھرا میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے ۔ انہوںنے تلنگانہ تحریک کے خلاف سیماآندھرا کے عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے انتہائی سخت گیر موقف اختیار کیا تھا اور اسی احتجاج سے وہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنے لئے الگ راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ سیماآندھرا میں ویسے تو تلگودیشم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا موقف مستحکم ہے اور شائد کانگریس وہاں کچھ کمزور ہے ۔ ایسے میں کرن کمار ریڈی کیلئے اپنی جگہ بنانا زیادہ آسان نہیںہوگا ۔ انہیں تاہم امید ہے کہ تقسیم ریاست کے خلاف انہوں نے جو انتہائی سخت گیر موقف اختیار کیا تھا

اور کانگریس ہائی کمان کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیںکیاتھا اس کا انہیںفائدہ ہوگا ۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں کچھ فائدہ حاصل ہو لیکن کسی جامع منصوبے کے بغیر محض تقسیم ریاست کے خلاف کٹر موقف کی بنیاد پر انہیںعوام کی تائید حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے ۔ ہو جس طرح سے انتخابات میں اثر انداز ہونے کا منصوبہ رکھتے ہیں وہ شائدپورا نہیںہوسکے گا ۔ پہلے ہی تلگودیشم اور وائی ایس آرکانگریس پارٹی بھی تقسیم ریاست کے خلاف مہم کی وجہ سے سیما آندھرا کے عوام میں اپنے اپنے موقف کو مستحکم بناچکی ہیں۔

کرن کمار ریڈی نے جس طرح سے تلگو عوام کی عزت نفس اور وقار کا نعرہ دیا ہے وہ بھی کھوکھلا ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ایک ریاست کی تقسیم سے تلگو عوام کی عزت نفس و وقار متاثر نہیں ہوتا ۔ ملک میںہندی بولنے والوں کی ایک سے زائد ریاستیں ہیں اور تلنگانہ کی تشکیل کے نتیجہ میں تلگو عوام کی بھی ایک کی بجائے دو ریاستیں ہوجائیں گی ۔ ایک طرح سے یہ فائدہ مند ہی ہے جبکہ اصل مسئلہ تلنگانہ عوام سے مسلسل ناانصافیوں کا جو تھا وہ حل ہوگیا ہے اور اب تلنگانہ کے عوام کو اپنے وسائل اور اپنے علاقہ پر اپنے ہی کنٹرول کا موقع ملے گا اور وہ اپنے علاقہ کو ترقی دیتے ہوئے اس کے ثمرات کو سارے تلنگانہ کے عوام تک پہونچا پائیں گے ۔ گذشتہ چھ دہوں سے ان کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ کرن کمار ریڈی محض سیاسی موقع پرستی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور سیما آندھرا کے عوام کو تقسیم ریاست کے فیصلے کے خلاف اکساکر اپنے لئے جگہ بنانا چاہتے ہیں تاہم ان کی یہ شائد کوشش کامیاب نہیں ہو پائیگی۔