کرنسی نوٹوں پر جان لیوا جراثیم ، تاجرین اور صارفین کو خطرناک بیماریوں کا خطرہ

وزیر فینانس ارون جیٹلی سے سنگین مسئلہ پر توجہ دینے تاجرین کی تنظیم کا مطالبہ
حیدرآباد ۔ 20 ۔ ستمبر : ( سیاست ڈاٹ کام ) : عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دولت یا پیسے کی ریل پیل انسان کو کئی روحانی ، جسمانی اور سماجی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے ۔ اس کے ذہنی و قلبی سکون کو چھین لیتی ہے ۔ آرام میں خلل پیدا کردیتی ہے حد تو یہ ہے کہ دولت اکثر انسانوں سے ان کی نیند بھی چھین لیتی ہے ۔ اور یہ بالکل درست بھی ہے اس لیے کہ حالیہ عرصہ کے دوران جو تحقیقی رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں ان میں انکشاف کیا گیا کہ کرنسی نوٹوں پر جراثیم کی بھر مار ہوتی ہے یہ ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو جلدی امراض ، پیشاب کی نالی ، سانس کی نالی کے انفکشن ( امراض تنفس ) ، امراض شکم ، عفونت خون ( خون میں زہریلے و فاسد مادوں کا سرایت کرجانا ) گردن توڑ بخار ، جسم پر سرخ و سیاہ دھبوں یہاں تک کہ تپ و دق ( ٹی بی ) کا باعث بنتے ہیں ۔ ہم آپ کو ڈرا نہیں رہے ہیں بلکہ حالیہ عرصہ کے دوران کی گئی متعدد تحقیق کی بنیاد پر یہ انکشافات کررہے ہیں ۔ دارالحکومت دہلی اور اطراف و اکناف کے علاقوں میں کی گئی تحقیق کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہندوستانی کرنسی نوٹوں پر پھپھوندی بیکٹریا وائرس اور دوسرے خوردبینی جراثیم کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے یہ وہ جراثم ہوتے ہیں جو ہاسپٹلوں کی ناکارہ اشیاء ، صنعتوں سے بہنے والی موریوں اور کوڑا کرکٹ میں پائے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں کانفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرس کے عہدہ داروں نے وزیر فینانس ارون جیٹلی کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی ہے ۔ اس مکتوب کی نقول مرکزی وزیر صحت جے پی ندا اور وزیر سائنس و ٹکنالوجی ہرش وردھن کو بھی بھیجی گئی ۔ مکتوب میں CAIT کے سکریٹری جنرل پروین کھنڈیلوال کے مطابق سائنسی جریدوں میں ہر سال اس طرح کی رپورٹس آتی رہتی ہیں لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ ان کا یہ بھی کہناتھا کہ تاجرین کرنسی نوٹوں کا استعمال سب سے زیادہ کرتے ہیں کیوں کہ وہ بہت زیادہ کرنسی نوٹس کی گنتی کرتے رہتے ہیں ۔ جن میں 10 روپئے ، 20 روپئے ، 100 روپئے کی کرنسی نوٹوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ ان کرنسی نوٹوں سے صارفین بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے علاوہ میڈیکل کونسل آف انڈیا اور انڈین میڈیکل اسوسی ایشن کو اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے آگے آنا چاہئے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سنٹر فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ CSIR اور انسٹی ٹیوٹ آف جیومکس اینڈ انٹی گریٹیڈ بیالوجی (IGIB) کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ حقائق سامنے آئے ۔ اس ضمن میں انگریزی کے موقر روزنامہ دی ہندو نے بھی تین سال قبل ایک رپورٹ شائع کی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ریسرچ کے دوران سڑکوں کے کنارے اشیاء فروخت کرنے والوں ، کرانہ اور جنرل اسٹورس ، کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی آوٹ لیٹس بشمول کینٹین ، ہوٹلوں کے علاوہ ہارڈویر شاپس ، میڈیکل ہالس سے کرنسی نوٹ جمع کی گئی ۔ بہر حال حکومت اور اس کے ادارہ بالخصوص مرکزی وزارت فینانس کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔