پرانے شہر میں انکم ٹیکس دھاوؤں کے ذریعہ کرناٹک میں خفیہ طور پر مدد کرنے کا وعدہ یاد دلایا گیا
l بی جے پی کا پس پردہ حلیف پارٹی کا استعمال lانتخابی مہم پر کروڑوں روپئے خرچ
l سرمایہ کاروں اور سیاسی دلالوں کی جماعت میں تبدیل l روزنامہ سیاست کی رپورٹ درست
حیدرآباد۔30نومبر(سیاست نیوز) کرناٹک انتخابات کے لئے صرف بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے انگشت ششم کا کردار ادا کرنے والے بھی سرگرم ہو چکے ہیں اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ وہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں اور انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔کرناٹک اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کے سلسلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی کو قطعیت دیئے جانے کے سلسلہ میں ادارۂ سیاست نے اکٹوبر کے اواخر میں ہی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں انتخابی کامیابی کیلئے اپنی پس پردہ حلیف کے استعمال کی راہیں بھی ہموار کر رہی ہیں لیکن حلیف اترپردیش ‘ بہار اور مہاراشٹر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی میں مدد کرنے والی سیاسی جماعت بی جے پی کے ایجنٹ ہونے کے الزام سے خوفزدہ ہونے کے سبب کرناٹک انتخابات میں حصہ لینے سے کترا رہی تھی کیونکہ کرناٹک انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی صورت میں اس کے اثرات حیدرآباد پر ہونے کا قوی امکان ہے۔ناندیڑ انتخابات میں بدترین شکست کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اور حیدرآباد کے عوام نے ’’ووٹ کٹوا‘‘ کہے جانے کو درست قرار دینا شروع کردیا تو فوری گلی گلی پیدل گھوم کر عوام سے ملاقاتیں کی جانے لگیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ حیدرآباد میں اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں ۔ گلی گلی دوروں کے دوران عوام کی جانب سے دیگر ریاستوں میں بی جے پی کی مدد کے متعلق کئے جانے والے استفسار کے سبب کرناٹک اسمبلی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے سلسلہ میں جماعت نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کردیا تھا لیکن جاریہ ماہ کے دوران پرانے شہر کے علاقہ میں ہوئے انکم ٹیکس دھاؤوں نے جماعت کو ریڑھ کی ہڈی پر کاری ضرب لگائی ہے کیونکہ انکم ٹیکس کے یہ دھاوے شہر کے ان کے اپنے حاشیہ برداروں پر کئے گئے تھے۔ اب جبکہ یہ اعلان کیا جاچکا ہے کہ کرناٹک انتخابات میں جماعت نے حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تو اب عوام میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ جماعت اب تک بخوشی بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے کام کر رہی تھی لیکن اب جبکہ مدد کرنے کے راز افشاء ہونے لگے ہیں اور بی جے پی سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے تو ایسی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جماعت کو انکم ٹیکس کے دھاوے کے ذریعہ ایک نمونہ دکھاتے ہوئے کرناٹک میں مدد کے لئے کئے گئے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔ حیدرآباد سے باہر انتخابات میں حصہ لینا اور ایسی جگہ جہاں جماعت کی ابتدائی مجالس اور اراکین کی تعداد نہ کے برابر ہے تو ایسے مقامات پر کروڑہا روپئے انتخابات پر خرچ کرنے کا کیا جواز ہے ؟ شہریان حیدرآباد کے ذہنوں میں یہ بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں ریاست کے تمام حلقہ جات اسمبلی سے مقابلہ کی طاقت نہ ہونے کا دعوی کرنے والے کس طرح سے اترپردیش میں انتخابی مہم کے دوران ہیلی کاپٹر کا استعمال کر سکتے ہیں؟
کرناٹک میں کٹوا پارٹی سرگرم (سلسلہ صفحہ اول سے)اسمبلی انتخابات میں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ انتخابی مہم چلانے کے بعد اب تو قیادت نے اترپردیش کے بلدی انتخابات میں بھی ہیلی کاپٹر کے استعمال کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ جماعت اب رکشہ ‘ بنڈی والوں کے خون پسینے سے چلائی جانے والی سیاسی جماعت یا رکشہ ’ بنڈی والوں کی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ سرمایہ کاروں اور سیاسی دلالوں کی جماعت میں بہتات ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی میں مدد کے ساتھ ان کے ساتھ معاملہ فہمی بھی کروانے لگے ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ کرناٹک انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلہ کے درپردہ وہی حکمت عملی ہے جو اترپردیش اورمہاراشٹر میں اختیار کی گئی تھی۔ شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ اب کرناٹک میں بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ ووٹ کٹوا کو بی جے پی کی شکست سے زیادہ کانگریس کو ہرانے میں دلچسپی ہے اور اسی لئے وہ ان ریاستوں کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست کے خوف سے زیادہ کانگریس کی کامیابی کے آثار کافی اچھے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر گجرات اور ہماچل پردیش میں جاری انتخابات میں بی جے پی کا ادعا ہے کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن کرناٹک کیلئے بی جے پی خائف ہے اسی طرح بہار میں بھی رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کوشش میں ناکامی کے بعد حکومت کو ہی خرید لیا گیا۔ اترپردیش میں یہ کوشش کامیاب ثابت ہوئی اور تمل ناڈو میں صرف اس لئے مقابلہ کیا گیا تاکہ ووٹ کٹوا کے الزام سے محفوظ رہا جا سکے ۔ روزنامہ سیاست نے 27 اکٹوبر کے شمارہ میںصفحہ اول پر اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک اسمبلی انتخابات میں 55تا60 اسمبلی نشستوں پر مسلم امیداوارو ںکو مسلم سیاسی پلیٹ فارم کے توسط سے اتارنے کی کوشش میں ہے اور کہا جارہا ہے کہ اپنے انتخابی حریف نما حلیف کی مدد کے حصول کے سلسلہ میں مذاکرات جاری ہیں اور اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ 30تا35امیدوار بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنتادل (سیکولر) سے اتارنے کی حکمت عملی تیار کی ہے اور مابقی 25تا30 امیدواروں کو کسی مسلم جماعت کے انتخابی ٹکٹ پر میدان میں لانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ اس انکشاف کے بعد سے جماعت نے کرناٹک انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن ایک یا دو تاجرین پر انکم ٹیکس دھاؤوں نے قیادت کو کرناٹک میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کیلئے راضی ہونا پڑا ور اس مقصد کیلئے انتخابی مصارف برداشت کرنے کے علاوہ 2ہزار کروڑ تک کی معاملت کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 25تا30 نشستوں پر مسلم ووٹ منقسم ہوتے ہیں تو اس کا راست فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا اور اسی طرح 30تا35 نشستوں پر اگر کسی اور سیاسی جماعت سے ٹکٹ دیتے ہوئے انہیں میدان میں اتارا جا تا ہے تواس کا فائدہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی پہنچے گا۔ کرناٹک کے وہ علاقہ جو انضمام حیدرآباد کے دور میں ریاست دکن حیدرآباد کی سرحد میں آتے تھے ان علاقوں کے عوام کو لبھانے کیلئے مقامی سیاسی جماعت کو راضی کروایا گیا ہے تاکہ وہ ان علاقوں کے ووٹ کی تقسیم میں اپنا کردار کردیں۔گجرات میں 3 اور 4 ڈسمبر کو وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی جلسے احمدآباد ۔ 30 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی گجرات میں 3 اور 4 ڈسمبر کو 7 انتخابی عام جلسوں سے سوراشٹر اور جنوبی گجرات میں خطاب کریں گے۔ گجرات میں اسمبلی انتخابات 9 ڈسمبر کو مقرر ہے۔ مودی 3 ڈسمبر کو سوراشٹر کے علاقوں بھڑوچ، سریندر نگر اور راجکوٹ میں انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ شام میں وہ احمدآباد میں سوامی نارائن گروکل وشوا ودیالیہ کی ایک تقریب میں شرکت کریں گے۔ اگلے دن چار انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گے۔