کرناٹک کا سیاسی ماحول

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
کرناٹک کا سیاسی ماحول
کرناٹک میں جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ماحول میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے اور ماحول کو پراگندہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ پارٹی اپنی دیرینہ حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے ماحول کو فرقہ وارانہ خطوط پر لیجا رہی ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرکے وہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی یہ دیرینہ حکمت عملی رہے ۔ جس کسی ریاست میں انتخابات کاو قت قریب آتا ہے پارٹی کی جانب سے فرقہ واریت کو فروغ دیا جاتا ہے اور سماج میں منافرت پھیلائی جاتی ہے ۔ اس کی مثال کئی ریاستوں سے لی جاسکتی ہے ۔اترپردیش ہو کہ گجرات ہو ‘ ہماچل پردیش ہو کہ گوا ہو ہر مقام پر بی جے پی نے فرقہ وارنہ خطوط پر تقسیم اور منافرت کے ذریعہ ہی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی ہے اور پھر اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرلیا ہے ۔ کرناٹک کی بی جے پی کیلئے بہت زیادہ سیاسی اہمیت ہے ۔ حالانکہ بی جے پی ملک کے تقریبا تمام اہم ریاستوں میں اقتدار حاصل کرچکی ہے لیکن جنوبی ہند اب بھی بی جے پی کیلئے تیڑھی کھیر بنا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ موجودہ حالات میں کرناٹک میں کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا جائے پھر یہاں سے سارے جنوبی ہند میں پیر پھیلائے جاسکیں۔ بی جے پی ایک مرتبہ کرناٹک میں اقتدار پر فائز بھی ہوچکی تھی تاہم اس کا اسے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیںہوسکا تھا اور پھر بہت جلد اسے اقتدارسے بیدخل ہونا پڑا تھا ۔ اب چونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اور سارا میڈیا بی جے پی کی مدح سرائی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کوشاں ہے ایسے میں اگر بی جے پی کرناٹک میں اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو اسے امید ہے کہ وہ جنوبی ہند میں اپنے عزائم کو پورا کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا اعلان ہونے سے قبل ہی پارٹی کی جانب سے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں ۔ا خلاقیات اور اصولوں کو کبھی کا قربان کردیا گیا ہے اور پارٹی اور اس کے قائدین کا مطمع نظر صرف اور صرف ووٹوں کا حصول ہے اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک گرسکتے ہیں۔
کرناٹک سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے ریاست میں بی جے پی کا کٹر ہندوتوا چہرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ وہ ملک کے دستور کو بدلنے کی بات تک کرنے لگے ہیں۔ پارٹی صدر امیت شاہ بھی اب کرناٹک کے دوروں کا آغاز کرچکے ہیںاور وہ بھی ماحول کو بگاڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں کئی ریاستوں کا تجربہ ہے اور عوام کی نبض کو دیکھتے ہوئے منافرت پھیلانے کی کوشش میں وہ بھی جٹ گئے ہیں۔ چیف منسٹر کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتے اور پھر اس طرح کی تنقیدوں کو مزید آگے بڑھانے کیلئے ان کے حواری بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ کانگریس نے بھی اس معاملہ میں بی جے پی کو ہر سوال کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے اور چیف منسٹر سدا رامیا ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی تنقیدوں کا سخت ترین جواب دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ ایک طرح سے بی جے پی کی ہی حکمت عملی ہے اور اس میں کانگریس قائدین پھنس سکتے ہیں۔ جس طرح سے گجرات انتخابات کے دوران منی شنکر ائیر کے ’ نیچ ‘ ریمارک سے بی جے پی نے سیاسی فائدہ حاصل کیا وہی صورتحال کرناٹک میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ کانگریس قائدین کو اشتعال دلا کر اور تنقیدوں میں الجھا کر کوئی ایسا ریمارک کروانے کی کوشش ہوسکتی ہے جس سے سیاسی بساط کو پلٹا جاسکے ۔ ایسی حکمت عملی کا شکار بہار انتخابات میں نریندر مودی ہوگئے تھے جہاں انہوں نے نتیش کمار کے ڈی این اے پر سوال کردیا تھا اور یہی سوال انہیں بہت بھاری پڑا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں نتیش نے خود انہیں نریندر مودی کی دوستی کو اختیار کرلیا ۔
کرناٹک کی جو سیاسی صورتحال ہے وہ کسی بھی وقت کوئی بھی موڑ اختیار کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ عوامی مسائل اور ترقیاتی موضوعات پر عوام کی توجہ نہ ہونے پائے اور انہیں صرف جملہ بازیوں اور بیان بازیوں میں الجھا کر رکھ دیا جائے ۔ ریاست کے عوام کو مرکز کی بی جے پی حکومت کی کارکردگی اور اس کے انتخابی وعدوں کی تکمیل پر سوال کرنے کا موقع ہی نہ مل پائے ۔ یہی وجہ ہے کہ دستور میں تبدیلی کی بات ہو رہی ہے تو کسی گوشے سے کسی اور نوعیت کے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ ریاست کیلئے ترقیاتی ایجنڈہ اور منصوبہ پر کسی کا دھیان نہیں ہے اور جہاں تک منشور کی بات ہے وہ صرف ایک رسمی کارروائی تک محدود ہوسکتا ہے جو پولنگ سے محض دو چار دن قبل جاری ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں ریاست کے رائے دہندوں کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے اور ترقیاتی ایجنڈہ کو سامنے رکھنے کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔