بی جے پی سے زہر افشانی ، ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش
حیدرآباد۔ 22ڈسمبر(سیاست نیوز) ٓآئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی! کرناٹک کے ریاستی و مرکزی قائدین کی جانب سے اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کرناٹک کے انتخابات کو فرقہ وارانہ ماحول سے پاک رکھتے ہوئے انہیں ترقی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیادوں پر لڑا جائے لیکن اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی نے کرناٹک میں ابھی سے فرقہ وارانہ زہر گھولنا شروع کردیا ہے اور ان انتخابات کیلئے نہ صرف ریاستی قائدین کے بیانات کا استعمال کیا جارہا ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی قائدین بھی کرناٹک سے متعلق بیانات جاری کرنے لگے ہیں تاکہ ماحول کو ابھی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے۔ چیف منسٹر اترپردیش نے گذشتہ یوم شہید ٹیپو سلطان ؒ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں ٹیپو سلطان کو یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔اس طرح کے بیانات کے ذریعہ ماحول کو مکدر کرنے کی کوششیں ابھی سے شروع کی جاچکی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ریاست کرناٹک میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے علاوہ وشوا ہندو پریشد کو بھی سرگرم کیا جاچکا ہے تاکہ نوجوانوں میں ہندوتوا کے متعلق شعور کو اجاگر کیا جاسکے۔ کانگریس کی جانب سے کرناٹک میں 2G اسکام میں کانگریس دور حکومت کو ملنے والی راحت کے علاوہ مہاراشٹر کانگریس قائد کو آدرش اسکام میں ملنے والی راحت کو موضوع بنائے جانے کے ساتھ ساتھ کرناٹک کے مقامی مسائل پر انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کانگریس نے کرناٹک میں بھی دیہی علاقوں کے علاوہ محفوظ نشستوں پر توجہ مرکوز کرنی شروع کردی ہے ۔ گجرات انتخابات کے نتائج میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ واضح ہو چکا ہے کہ دیہی عوام بھارتیہ جنتا پارٹی سے ناراض ہے اور دیہی عوام کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اٹھاتے ہوئے منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں کانگریس کو حاصل ہونے والی مقبولیت کا فائدہ اٹھانے کے علاوہ کانگریس کی جانب سے محفوظ نشستوں پر سخت مقابلہ کی حکمت عملی تیار کی جانے لگی ہے اور کہا جار ہاہے کہ ریاست میں کانگریس کی جانب سے دیہی علاقوں کے امیدواروں کو قطعیت دینے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ محفوظ نشستوں پر کانگریس کی جانب سے بڑھ رہی توجہ کے سلسلہ میں کہا جا رہا ہے کہ ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے دلتوں کو قریب کرنے کی کوشش میں ہونے والی ناکامی کی مثال گجرات انتخابی نتائج بن چکے ہیں کانگریس کے قائدین عوام کو اس بات سے واقف کروا رہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مخالف دلت پارٹی ہے اور کانگریس کی اس مہم کو دلت تنظیموں اور غیر سرکاری سماجی کارکنوں کی تائید بھی حاصل ہونے لگی ہے جس کے سبب یہ کہا جا رہاہے کہ محفوظ نشستوں پر کانگریس کی کامیابی کو یقینی بنانے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی اور نہ ہی دیہی علاقوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی اثر باقی رہے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی دیہی علاقو ںمیں آنے والی اس تبدیلی اور دلتوں کی پارٹی سے دوری کو محسوس کر چکی ہے اسی لئے شہری علاقوں میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے علاوہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کی حکمت عملی پر بھی زور دے رہی ہے اور آر ایس ایس کے ذریعہ کرناٹک میں اکثریتی طبقہ کے ووٹوں کو متحد کروانے کی کوشش بھی جا رہی ہے اور دلتوں میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہے لیکن دلتوں میں آر ایس ایس کو رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب کرناٹک میں دلت قائدین کے ذریعہ دلتوں کو قریب کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنوبی ہند میں کرناٹک میں کامیابی کے ذریعہ جو داخلہ کا منصوبہ تیار کیا ہے اس کے متعلق چیف منسٹر مسٹر سدا رامیا کا کہناہے کہ ملک بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے اس کامیابی کا سلسلہ کرناٹک سے ختم ہونا شروع ہوگا اور کانگریس کی کامیابی کا نیا سلسلہ شروع ہوگا جو کہ 2019 میں ملک میں سیکولر اور عوام دوست حکمرانی کے 135 کروڑ عوام کے خواب کو پورا کرے گا مسٹر سدا رامیا کا کہنا ہے کہ ریاست کرناٹک میں جس طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو کرناٹک میں انتخابی مہم کے آغاز سے پہلے ہی شکست کا اندازہ ہوچکا ہے اسی لئے ریاست میں ووٹ کی تقسیم اور فرقہ وارانہ زہر کے ذریعہ ماحول کو مکدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاست کرناٹک میں کی جانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی کوششوں کے متعلق کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں عوام کو متنبہ کر رہی ہیں اور کہا جا رہاہے کہ کانگریس کو انتخابات میں کامیابی کیلئے صرف ووٹوں کو تقسیم سے بچانا ہے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس اور ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ ہی کامیابی کے حصول کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔