کانگریس سے سخت مقابلہ کیلئے تیاری ، چیف منسٹر کرناٹک و دیگر قائدین متفکر
حیدرآباد /31 جنوری ( سیاست نیوز ) جنوبی ہند میں اپنے قدم جمانے کیلئے بے چین اور کانگریس مکتبھارت کا خواب دیکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے کرناٹک میں اپنی سیاسی پالیسی کا آغاز کردیا ہے ۔ تاہم گجرات کے حوصلہ افزاء نتائج سے پرعزم کانگریس قائدین اور اعلی کمان ہر طرح کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں جٹ گئے ہیں اور جنوبی ہند سے بی جے پی کو برخواست کرنے کی پالیسی بنانے میں مصروف ہیں ۔ تاہم ریاست کرناٹک میں موجودہ وزیر اعلی نے اپنے بیان میں کہا کہ مقابلہ راست بی جے پی سے ہوگا ۔ لیکن بی جے پی ریاست کرناٹک میں ایک نئی بلکہ پھوٹ ڈالنے اور اقلیتی ووٹوں کی تقسیم کی ایک نئی چال چل رہی ہے ۔ جو کانگریسوں کیلئے لمحہ فکر بنا ہوا ہے اور سب سے زیادہ اس نئی سیاسی چال سے وزیر اعلی کرناٹک پریشان ہیں ۔ ٹیپو سلطان کے نام پر سیاسی بے چینی پھیلانے کے بعد اب بی جے پی سیاسی چال چل رہی ہے ۔ دانشوروں کے مطابق یہ ایک خطرناک سیاسی چال ہوسکتی ہے جو نہ صرف علاقوں کی عوام بلکہ اقلیتی رائے دہندوں کو علاقائی خصومت کا شکار کردے گی ۔ صدر بی جے پی نے جو نئی سیاسی چال تیار کی ہے اس میں اہم پہلو یہ ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں اور علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز اس نئی سیاسی چال پر عمل آوری کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ ریاست کرناٹک کی پڑوسی نوتشکیل شدہ ریاست کی سیاسی جماعت کے علاوہ مسلمانوں کی بہبود کے نام پر تشکیل دیا گیا ۔ محاـذ جس کی صدارت ایک خاتون کر رہی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خاتون صدر کی جانب سے علاقوں میں جلسہ جلوس اور پروگراموں کا آغاز بھی ہوچکا ہے ۔ جبکہ پڑوسی ریاستوں میں منظم انداز سے کام کرنے والے ایک اور فرنٹ کو بھی اس نئی سیاسی چال کا حصہ تصور کیا جارہا ہے اور ان جماعتوں اور محاذ فرنٹ کو علاقائی لحاظ سے سرگرم ہونے کی ذمہ داری دی جارہی ہے ۔ چونکہ نوتشکیل شدہ ریاست کی جماعت اور ان کے قائدین بنگلور کی طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں ۔ انہیں اس جانب موقع دیا جائے گا تو دوسری طرف بھٹکل منگلور ، دھاڑواڑ بیلگام ، کاردار و دیگر علاقوں میں خاتون صدر والے سیاسی محاذ اور فرنٹ کو مسلم ووٹ نبھانے کی ذمہ داری دی جائے گی ۔ شمالی ہند اور مشرقی ہند میں رہنمائی کی گئی فرقہ وارانہ نوعیت کی پالیسی اپنانے کے علاوہ جنوبی ہند کی اس اہم ترین ریاست میں کامیابی کیلئے سیکولر قائدین کے مطابق بی جے پی کس حد تک جاسکتی ہے ۔ لیکن سیکولر اور جمہوریت پسند ڈیموکریٹک قائدین اس سیاسی چال کو ناکام بنانے کی فکر میں جٹ گئے ہیں ۔ ریاست کرناٹک میں مسلم آبادی 11 تا 13 فیصد پائی جاتی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ریاست کرناٹک میں 17 فیصد مسلم رائے دہندے پائے جاتے ہیں ۔ اقتدار کو حاصل کرنے کیلئے مسلم آبادی والے علاقوں میں ووٹوں کی تقسیم ہی بی جے پی کو کامیابی دلاسکتی ہے تو مسلم سیکولر ووٹوں کو تقسیم سے بچانا ہی کانگریس کیلئے اہم کارنامہ ثابت ہوگا جو اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان سے بی جے پی کو برخواست کرنے میں اہم رول ادا کرے گی ۔