بوئے گل ڈھونڈتی پھرتی ہے بیاباں میں مجھے
وحشتِ دل نہیں معلوم کہاں لائی ہے
کرناٹک میں ایک کروڑ روزگار
کرناٹک کے رائے دہندوں کو کانگریس کے منشور میں درج میٹھے بول کی کڑواہٹوں کو سمجھ لینا چاہئے۔ 12 مئی کو منعقدہ اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس نے اپنا منشور جاری کرتے ہوئے ریاست میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس طرح کے منشور کا تجربہ رکھنے والے عوام کو کانگریس کے وعدوں کا جائزہ لینے کا موقع مل رہا ہے۔ دوسری میعاد کیلئے جدوجہد کرنے والی سدارامیا حکومت اپنے عوام کی محبت کو دوبارہ حاصل کرسکے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔ گماں یہ ہیکہ عوام دھوکے کھاتے رہیں گے۔ کانگریس، کرناٹک کے رائے دہندوں کو اپنی کارکردگی سے قائل کرانے میں کامیاب ہورہی ہے تو ووٹ بھی اسی کے حق میں ہوں گے۔ کانگریس نے آئندہ 5 سال میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے وعدہ کے منشور کو کرناٹک کے عوام کی آرزو قرار دیا اور یہ منشور بند کمرہ میں دو چار لوگوں کی جانب تیار کردہ کاغذ کا پلندہ نہیں ہے۔ صدر راہول گاندھی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سدارامیا حکومت نے گذشتہ 5 سال کے دوران 95 فیصد وعدوں کو پورا کیا ہے۔ گذشتہ 2013ء کے انتخابات سے قبل جاری کردہ منشور میں کئے گئے وعدوں کوکس حد تک پورا کیا گیا ہے اس سے عوام واقف ہیں۔ کرناٹک کی 225 رکنی اسمبلی کیلئے یہ انتخابات زعفرانی پارٹی کیلئے بھی اہم ہیں۔ بی جے پی نے اس مرتبہ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے انتخابی مہم میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتی۔ انتخابات میں نہ صرف لنگایت کا مسئلہ پایا جاتا ہے بلکہ انتخابی میدان میں موجود سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک طرح سے سیکولر بمقابلہ فرقہ پرستوں کی جنگ بھی کہا جارہا ہے۔ کانگریس نے ریاست کے لنگایت طبقہ کو اقلیتی موقف دینے کا مرکز سے مطالبہ کرکے بی جے پی کے امکانات پر کاری ضرب لگائی ہے لیکن اس نے اب تک اپنی انتخابی مہم میں اس مسئلہ کو شدت سے نہیں اٹھایا اور نہ ہی گذشتہ پانچ سال کی حکمرانی کے کارناموں سے عوام کو واقف کروانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ چار سال میں سدارامیا حکومت نے تیزی سے ترقیاتی کام انجام دیئے ہیں۔ خاص کر کشر بھاگیہ، انابھاگیہ، کرشی بھاگیہ، اندراو سزا بھاگیہ، اندرا کینٹن، ملٹی ویلج پینے کے پانی کی سربراہی اسکیم کو یقینی بنانے کا دعویٰ کیا گیا مگر گذشتہ دو سال سے ریاست میں قحط سالی جیسی صورتحال پائی جاتی ہے اس پر حکومت نے کوئی منصوبہ روبہ عمل نہیں لایا۔ کرناٹک کے کئی غریب خاندان دیگر ریاستوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ اس مسئلہ سے نمٹنے میں سدا رامیا حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں یہ غیرواضح ہے۔ گذشتہ ایک سال سے کانگریس حکومت نے ریاست میں بی جے پی کی طاقت کا مقابلہ کرنیکی تیاری میں ہی وقت صرف کردیا ہے۔ مودی کی ترقی اور نئے ہندوستان کے نعرے کا جواب تیار کرنے میں اپنی طاقت جھونکنے والی سدارامیا حکومت نے بظاہر 2025ء کا اپنا ویژن پیش کرتے ہوئے تمام شہریوں کی ترقی کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو کرناٹک کے دیہی علاقوں میں سدا سرکار پروگرام کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ خاص کر حیدرآباد۔ کرناٹک علاقہ کی پسماندگی دور کرنے میں حکومتیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ گلبرگہ، بیجاپور اور گدگ جیسے اضلاع میں موسم گرما میں پینے کے پانی کی سربراہی ایک سنگین مسئلہ ہوتی ہے اور حکومت کیلئے یہ سب سے بڑا چیلنج بھی ہے۔ حکومت نے ملٹی ولیج پینے کے پانی کی اسکیم شروع کی، مگر اس سے عوام کو خاص راحت نہیں ملی۔ اس سلسلہ میں ریاست کرناٹک کے ساتھ مرکز کی سردمہری کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ مرکز نے کرناٹک کی کانگریس حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اپنے حصہ کا کام مکمل نہیں کیا۔ یہ شکایت برقرار ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی نے کرناٹک کے پینے کے پانی کے مسئلہ میں کوئی مدد نہیں کی۔ کانگریس کی انتخابی مہم میں ان باتوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ کانگریس نے شاید پہلی مرتبہ کرناٹک کی انتخابی مہم میں اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی جیسے ماضی کے قائدین کا کوئی حوالہ بھی نہیں دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ کانگریس اپنی نئی قیادت راہول گاندھی کو ہی نمایاں کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ریاست کے رائے دہندوں کی یہ شکایت بھی جوں کی توں برقرار ہے کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ایک پولیس عہدیدار کی خودکشی ہو یا لوک ایوکت پر حملہ ہو یا رکن اسمبلی کے فرزند پر حملے کے علاوہ خاتون صحافی گوری لنکیش کا قتل بھی اس حکومت میں ہوا ہے۔ بنگلور شہر کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن اب یہ شہر ناقص منصوبوںکی وجہ سے کنکریٹ، جنگل میں تبدیل ہوکر گارڈن سٹی سے گاربیج سٹی بن جانے کی شکایت کی جارہی ہے۔ کانگریس کو اپنے منشور میں ان تمام باتوں کو شامل کرنا تھا لیکن راہول گاندھی کی قیادت میں کرناٹک کانگریس کو اپنی دوسری میعاد کیلئے رائے دہندوں میں پائے جانے والے خوف کی فضاء اور عدم سلامتی کے احساس کو دور کرنا ضروری ہے۔
ملک میں کرنسی کی قلت، ترقی متاثر ہوگی؟
نوٹ بندی کے بعد ملک میں کرنسی کی قلت کا عام زندگی پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ حکومت اور بنکوں پر عوام کا بھروسہ ختم ہوتا جارہا ہے تو یہ افسوسناک تبدیلی ہے۔ مرکز کی مودی حکومت نے بینکوں کو بعض عنوانات کے ذریعہ پابند کردیا ہے تو بینک میں اپنی رقم جمع کرکے مطمئن ہوجانے والا کھاتہ دار اب بے چین اور غیریقینی کی کیفیت سے دوچار دکھائی دے رہا ہے۔ بینکوں، اے ٹی ایمس سے بتدریج کرنسی کا غائب ہوجانا اچھی علامت نہیں۔ عوام کی اکثریت دھیرے دھیرے پرانے وقتوں کی عادتوں کو اختیار کررہی ہے ۔ یعنی اپنا پیسہ اور جمع پونجی اپنے ہی پاس رکھی جائے۔ بینکوں میں رقومات جمع کرکے اس کے حصول کے لئے تگ ودو کرنے اور حکومت کو حساب پیش کرنے کی پابندیوں میں پھنسنے سے گریز کرنے کی خاطر عوام اپنی رقومات اپنی تجوریوں میں رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے ہر روز نت نئے بینک قواعد شرائط کے ساتھ عوام کو پریشان کررہی ہے۔ جب بینکس مائیکرو سطح پر رقومات کا انتظام کرنے میں ناکام ہوں تو وہ عملاً عوام کے اندر بے چینی پیدا کررہے ہیں۔ یہی صورتحال رہی تو آئندہ عوام اپنی رقومات جمع کرانے کیلئے بینکوں کا رخ نہیں کریں گے۔ کرنسی کی قلت کے اسباب مختلف ہیں جن لوگوں کے پاس خطیر رقم ہے وہ اسے منجمد کررہے ہیں۔ حال ہی میں محکمہ انکم ٹیکس نے کئی مقامات پر دھاوے کرکے 14.48 کروڑ روپئے کی کرنسی ضبط کرلی۔ ضبط شدہ کرنسی میں 2000 اور 500 روپئے کے نوٹ تھے۔ اس سے پہلے 6.76 کروڑ روپئے ضبط کرلئے گئے تھے۔ حیدرآباد میں ہی 2000 روپئے کے کرنسی کی شکل میں نوٹوں کو ضبط کیا گیا جو 5.10 کروڑ روپئے ہیں۔ ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہونے کی وجوہات تشویشناک ہے۔ اگر حکومت آر بی آئی اور دیگر ماہرین مالیات نے مسئلہ کا حل تلاش نہیں کیا تو آگے چل کر ہندوستان میں بینک کاری نظام ٹھپ ہوجائے گا۔