ہوئی مدت کہ غالب مرگیا ‘ پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا ‘ کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
کرناٹک میں آج رائے دہی
جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں آج رائے دہی ہے ۔ رائے دہی کے ذریعہ ریاست کی نئی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آئیگا ۔ ریاست میں اقتدار پر فائز کانگریس اور اقتدار کی دوسری دعویدار بی جے پی کے مابین گھمسان کی انتخابی لڑائی ہوئی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران انتہائی شدت کے ساتھ ہر جماعت نے اپنے اپنے موقف کو رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست میں انتخابی مہم کے دوران ریاست اور عوام کو درپیش مسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ خاص طور پر بی جے پی کی جانب سے ریاست میں انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ کارڈ ہی کھیلا گیا ہے ۔ ریاست میں عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ایسے ایسے ریمارکس کئے گئے کہ انتخابات نہیں جنگ کا ماحول پید ا ہوگیا تھا ۔ بعض بی جے پی قائدین نے تو عوامی مسائل کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ان انتخابات کو ہندو ازم اور اسلام کے مابین جنگ تک قرار دیدیا تھا ۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ رہی کہ ایسے ریمارکس کی بی جے پی کے قائدین اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی یا بی جے پی صدر امیت شاہ کی جانب سے کوئی مذمت نہیں کی گئی ۔ ان دونوں کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ۔ اس طرح کے ریمارکس کو خود مودی اور امیت شاہ کی تائید بھی حاصل رہی تھی ۔ بی جے پی جنوبی ہند میں اپنی اولین حکومت بنانے کیلئے بے چین ہے اور اس کیلئے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور اس کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ وہ کانگریس مکت بھارت کے اپنے منصوبہ کے نام پر دوسرے خفیہ عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ اسی لئے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے سارے ملک میں بھگوا جھنڈا لہرانے کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔ اس کیلئے وہ نہ انتخابی قوانین کی پاسداری کا کوئی خیال کرنے تیار ہے اور نہ ہی وہ قومی یکجہتی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کوئی فکر کرنے تیار ہے ۔ وہ کسی بھی قیمت پر کرناٹک میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ رہی کہ انتخابی مہم کے دوران اس کے قائدین بے لگام ہوتے گئے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی ‘ پارٹی صدر امیت شاہ ‘ چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ ‘ کئی دوسری ریاستوں کے بی جے پی چیف منسٹرس ‘ بے شمار مرکزی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ نے پارٹی کے اس منصوبہ کا حصہ بنتے ہوئے ریاست میں انتخابی مہم میں حصہ لیا ہے ۔ ریاست میں بے دریغ رقومات خرچ کرنے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ شراب بھی پانی کی طرح بہائی جا رہی ہے ۔ بحیثیت مجموعی صرف منفی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کوئی ایجنڈا پیش نہیں کیا گیا ۔ کوئی منصوبے عوام کے سامنے نہیں رکھے گئے ۔ ضابطہ کی تکمیل کیلئے پارٹی کا منشور توپیش کردیا گیا لیکن اس منشور پر کوئی تقاریر نہیں ہوئیں۔ عوام کے مسائل کو کسی نے موضوع بحث نہیں بنایا ۔ ریاست کی ترقی کا کوئی ایجنڈا یا پروگرام پیش نہیں کیا گیا اور صرف فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ریاست کے رائے دہندوں کو اب اس ساری صورتحال کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کا وقت ہے ۔ رائے دہندے کسی بھی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کیلئے آزاد ہیں لیکن انہیں یہ بات ضرور ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ان کا ووٹ ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے ہونا چاہئے ۔ جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرنے کے عزائم رکھنے والی طاقتوں کو انہیں منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
جہاں بی جے پی جنوبی ہند میں قدم جمانے کرناٹک میں سارا زور لگا چکی ہے وہیں کانگریس پارٹی اپنے احیاء کیلئے بے تکان جدوجہد کر رہی ہے ۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابی نتائج آئندہ ہونے والے ہر انتخاب کیلئے مشعل راہ بن سکتے ہیں اور یہ سہرا ریاست کے عوام کے سر جائیگا کہ انہوں نے ملک کے مستقبل کیلئے ایک راہ کا تعین کیا ہے ۔ انہیں کسی طرح کی جذباتیت اور فرقہ وارانہ پالیسیوں اور نفرت انگیز مہم کا شکار ہوئے بغیر پورے ہوش و حواس کے ساتھ ملک میں پیش آنے والے واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ رائے دہندوں کا شعور اور ان کی بصیرت ہی ایسی طاقتوں پر لگام کس سکتی ہے جو ملک کا شیرازہ بکھیرنا چاہتے ہیں۔ ان طاقتوں کو سبق سکھانا رائے دہندوں کے ہاتھ میں ہے ۔