ریاست کرناٹک میں سیاسی حالات ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد ابھی تک مستحکم نہیں ہو پائے ہیں۔ ریاست میں حالانکہ کانگریس نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایچ ڈی کمارا سوامی کی تائید کرتے ہوئے ان کی حکومت بنانے میں مدد کی اور اس حکومت میں حصہ دار بھی بن گئی ہے تاہم کانگریس ہی کے کچھ قائدین ایسا لگتا ہے کہ اس مخلوط حکومت کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ یا تو وہ خود اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر دوسروں کے آلہ کار بنتے ہوئے ان کیلئے حالات سازگار بنانے کی کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں۔کرناٹک میں ایچ ڈی کمارا سوامی حکومت کا قیام خود کئی رکاوٹوں کو پھلانگنے کے بعد عمل میں آیا تھا اس کے بعد سے بھی اس حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ خود کمارا سوامی اس کا اعتراف کرنے لگے ہیںاور ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ ان کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمار ا سوامی کا کہنا تھا کہ وہ خود اپنی حکومت اور اقتدار کو بچانے کی کوشش نہیں کرینگے بلکہ عوام کیلئے بہتر کاموں کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ کمارا سوامی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ ایک دن قبل ہی سابق چیف منسٹرسدارامیا نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ ریاست کے چیف منسٹر بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے حالانکہ گذشتہ اسمبلی انتخابات کے وقت اعلان کردیا تھا کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہوگا اوراس کے بعد وہ انتخابی سیاست سے دور ہوجائیں گے ۔ چند مہینوں کے اندر ہی اپنے فیصلے میں تبدیلی لاتے ہوئے سدارامیا دوبارہ ریاست کے چیف منسٹر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یقینی طور پر ایسا کرنے کا حق حاصل ہے لیکن انہیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ فی الحال اس عہدہ پر فائز نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی پارٹی کو ریاست میں اکثریت حاصل نہیں ہے اور ان کی پارٹی نے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے کمارا سوامی کی قیادت میں حکومت کی تائید کی ہے ۔ انہیں ایسی کوشش نہیں کرنی چاہئے جس سے ریاست میں اس اتحادی حکومت کا استحکام متاثر ہوسکے اور بی جے پی کو صورتحال کے استحصال کا کوئی موقع ہی ہاتھ آجائے ۔ کوئی معمولی بھی موقع بی جے پی کے ہاتھ آتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھاسکتی ہے ۔
کمارا سوامی ہوں یا سدا رامیا ہوں یا پھر کانگریس کے دوسرے قائدین ہوں انہیںاس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کرناٹک میں کوئی بھی سیاسی اتھل پتھل قومی منظر نامہ کو بدل کر رکھ سکتی ہے ۔ اس تبدیلی کے قومی سطح پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اورا یسے وقت میں جبکہ ملک میں عام انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے یہ تبدیلیاں بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ اگر کرناٹک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے اور حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کو حسب سابق آگے بڑھا نے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو اس سے بھی قومی سیاست پر اپوزیشن کے امکانات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ سدارامیا ہوں یا دوسرے قائدین ہوں انہیںا پنے شخصی مفادات یا شخصی عہدوںکو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی سیاست اور ملک کے مستقبل کے تعلق سے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے ۔ اقتدار یا کرسی تو محض وقتی ہوتی ہے اور کبھی بھی ہاتھ آسکتی ہے اور کبھی بھی ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے ۔ اس سے سیاسی قائدین بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنے مفادات یا مخالفتوںکو فی الحال بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وسیع تر قومی مفاد کو آگے بڑھایا جاسکے ۔ کرناٹک میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی بھی قومی منظرنامہ پر کسی نہ کسی حد تک اثر ڈال سکتی ہے اور اگر بی جے پی کو اس صورتحال کے استحصال کا موقع ہاتھ آجائے تو پھر دوسروں کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوگا ۔
کرناٹک میں انتخابی نتائج نے بی جے پی کی مسلسل کامیابیوں پر ایک طرح سے بریک لگایا ہے ۔ اس کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کی چار ریاستوں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر ان یاستوں میں کانگریس بی جے پی سے اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے بھی قومی سیاست اور پھر عام انتخابات پر کافی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر خود کانگریس کی قیادت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ جو غیر مطمئن گوشے ہیں انہیں قابو میں کرنے کیلئے پارٹی قیادت کو منصوبہ بندی کے تحت کام کرنا ہوگا تاکہ کرناٹک کی وجہ سے قومی سطح پر پارٹی کے امکانات متاثر نہ ہونے پائیں اور یہاں کے حالات سے فرقہ پرستوںکو کوئی مدد نہ ملنے پائے ۔