کرناٹک ‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ

نہ جانے کہاں جانے والے گئے
جنہیں ہاتھ آیا نہ دامن ترا
کرناٹک ‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ
کرناٹک میں جاری اقتدار کی جنگ ایک طرح سے اپنے عروج کو پہونچ چکی ہے اور سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت کرتے ہوئے فیصلہ سنانا پڑا ہے ۔ سپریم کورٹ نے کل ہفتہ کی شام 4 بجے تک ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کی ایڈورپا کو ہدایت دی ہے جنہیں کل گورنر وجو بھائی والا کی جانب سے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف دلوادیا گیا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالت کی ہدایت کے بعد بی جے پی کیلئے لڑائی مشکل ہوگئی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے اور خاص طور پر ایڈورپا کی جانب سے اب بھی یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ وہ ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کر دکھائیں گے اور انہیں درکار تعداد میں ارکان اسمبلی کی تائید حاصل ہے لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا ۔ بی جے پی لیڈر رام مادھو کا ایک ریمارک یہاں قابل توجہ ہے ۔ ایک نیشنل ٹی وی پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے جب ٹی وی اینکر کی جانب سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ بی جے پی کے پاس صرف 104 ارکان اسمبلی ہیں اور وہ در کار تعداد کہاں سے لائے گی ۔ رام مادھو نے قومی ٹی وی پر واضح طور پر کہا کہ ’’ ہمارے پاس امیت شاہ ہیں ‘‘ ۔ اس طرح انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ امیت شاہ توڑ جوڑ میں ماہر ہیں اور وہ کسی طرح بی جے پی کی اکثریت کیلئے درکار تعداد جٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اس پس منظر میں جے ڈی ایس کے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ اس کے ارکان اسمبلی کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کیلئے 100 کروڑ روپئے میں خریدنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس طرح یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی کو جو خود کو کرپشن کے خلاف لڑنے والی جماعت قرار دیتی ہے وہ خود اپنی حکومت بنانے کیلئے کرپشن کا ہی سہارا لے رہی ہے ۔ خود کو اصول پسند جماعت قرار دینے والی بی جے پی خود اقتدار کیلئے اصولوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے ۔ وہ نہ دستور کی اہمیت کو سمجھنے تیار ہیں اورنہ جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل میں اسے کوئی دلچسپی ہے ۔ وہ صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اس کوشش میں گورنر تک کی مدد مل رہی تھی ۔ گورنر نے اپنے دستوری عہدہ کے باوجود بی جے پی کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اور اکثریت ثابت کرنے کیلئے 15 دن کی مہلت تک دیدی تھی ۔
اب جبکہ عدالت کی جانب سے محض 24 گھنٹے دئے گئے تھے اور آج ہی اکثریت ثابت کرنے کو کہا گیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گورنر نے پندرہ دن کا وقت دیتے ہوئے غلطی کی تھی ۔ خود چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے والے ایڈورپا نے آٹھ دن کی مہلت مانگی تھی اور گورنر نے پندرہ دن کی مہلت دیدی تھی ۔ یہ ساری صورتحال ملک میں جاری ایک مخصوص سوچ کو مسلط کرنے کی کوششوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں ہر گوشے سے کوشش کی جا رہی ہے کہ آزاد فکر و خیال کو ہمیشہ کیلئے دبایا اور کچل دیا جائے ۔ یہاں کسی بھی مخالفانہ رائے کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے اور ملک کے ہر گوشے اور ہر ادارے پر ایک مخصوص سوچ اور فکر کو مسلط کیا جائے ۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے کل ہی ایک ریمارک میں کہا تھا کہ ملک میں ہر دستوری ادارے میں ایک مخصوص ذہن و فکر رکھنے والوں کو غلبہ دلایا جا رہا ہے ۔ ہر اہم ترین ادارہ پر آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے لوگ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیںاور اس سے ملک میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ یہ واقعی ایسی صورتحال ہے جو قابل تشویش ہے اور ایسی کوششوں کی ہر انصاف پسند اور اصول پسند گوشے کی جانب سے مذمت کی جانی چاہئے ۔ یہ حقیقت ہر کسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مخصوص سوچ کے ساتھ ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔
سپریم کورٹ نے کرناٹک میں اقتدار کی جنگ میں جو فیصلہ سنایا ہے وہ انتہائی قابل خیر مقدم فیصلہ ہے ۔ حکومت سازی کا دعوی کرنے والی بی جے پی کو اکثریت ثابت کرنے کیلئے جو مختصر مہلت دی گئی ہے وہ کافی ہے کیونکہ اگر واقعی اس کے پاس اکثریت ہے تو پھر وقت گنوانے میں کوئی فائدہ نہیںہے ۔ اگر اس کے پاس اکثریت نہیں ہے تو پھر اسے ارکان کو خریدنے کا موقع نہ مل پائے اور نہ اس سے جمہوریت کا مذاق بن سکے ۔ عدالت کا فیصلہ عدلیہ میں عوام کے اعتماد کو مزید مستحکم کرنے کا موجب بنا ہے اور اس سے جمہوریت سے اور دستوری گنجائش سے کھلواڑ کرنے کی کوششوں کی بھی نفی ہوگی ۔ عدلیہ کے اس تاریخی فیصلے سے کرناٹک میں حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کرنے والی حکومت کے قیام میں مدد ملے گی ۔