گھبرانے کی منزل تو بہت بعد تھی لیکن
گھبرا گئے وہ پرسشِ حالات سے پہلے
کرناٹک ‘ جھوٹے دعوے و منفی سیاست
کرناٹک اسمبلی انتخابات کیلئے اب جبکہ نامزدگیوں کا ادخال پورا ہوچکا ہے اور انتخابی مہم عروج پر پہونچنے لگی ہے تو سیاسی جماعتوں کے اصل چہرے بے نقاب ہونے لگے ہیں۔ اقتدار کے لالچ میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا طریقہ ہندوستان کی سیاست میں قدیم ہے اور اس سے بچنے کی فی الحال تو کوئی راہ نظر نہیں آتی ۔ اس سے بچنا ممکن کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مرکز میں برسر اقتدار جماعت خود ایسی سیاست اختیار کرے جو منفی ہے اور اس سے سماج میںنفاق ہی پیدا ہوسکتا ہے اور اتحاد کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ۔ ملک پر حکمرانی کرنے والی جماعت اگر کسی ریاست کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اوچھی سیاست کرتی ہے تو پھر اس سلسلہ میں دوسروں کو تاکید کرنا ممکن نہیں رہ جاتا اور نہ ایسی کسی تاکید کا کوئی اثر ہوسکتا ہے ۔ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں کانگریس کو اپنا اقتدار بچاتے ہوئے راجستھان اور مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کی تیاری کرنی ہے اور یہیں سے کانگریس کے کیڈر کو آئندہ عام انتحابات کیلئے تیار کیا جانا چاہئے ۔ اس اعتبار سے یہ کانگریس کیلئے کافی اہمیت کے حامل انتخابات ہیں۔ ساتھ ہی بی جے پی کیلئے ‘ جس نے ملک کی بیشتر ریاستوں میں اقتدار حاصل کرلیا ہے یہ ریاست کافی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جنوب میں اس پارٹی کا داخلہ اب تک بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے ۔نریندر مودی اقتدار کے چار سال پورے ہورہے ہیں اور اب ان کی معیاد اختتامی مراحل میں داخل ہو رہی ہے ۔ اس کے باوجود جنوبی ہند میں بی جے پی کا وجود محض معمولی ہے اور یہاں اسے استحکام نہیں مل سکا ہے ۔ جنوب میں اسے پیر پھیلانے کیلئے کسی ایک ریاست میں اقتدار کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے کرناٹک میں پوری شدت کے ساتھ مہم چلائی جا رہی ہے تاہم اس مہم میں جھوٹے پروپگنڈے ہو رہے ہیں اور منفی سیاست کی جا رہی ہے ۔ یہاں سماج میں تقسیم پیدا کرنے کی قدیم روایت کا ہی بی جے پی سہارا لے رہی ہے ۔ ایسے دعوے کئے جا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ نت نئے انداز سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کوئی جامع ترقیاتی منصوبہ پیش نہیں کیا جا رہا ہے ۔
کرناٹک میں کسانوں کی حالت زار اور مرکزی فنڈز کے استعمال پر کانگریس سے سوال کیا جا رہا ہے لیکن کوئی بی جے پی لیڈر یہ قبول کرنے تیار نہیں ہے کہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں کسانوں کی حالت کس قدر بگڑ گئی ہے ۔ ہر ریاست میں روز کوئی نہ کوئی کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہے ۔ کرناٹک میں لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعات پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ لیکن کوئی بی جے پی لیڈر یہ اعتراف کرنے کا ظرف نہیں رکھتا کہ بی جے پی اقتدار اور خاص طور پر یوگی اقتدار والی ریاست یو پی میں ہرگذرتے دن کے ساتھ معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی اور قتل ہو رہے ہیں۔ گجرات میں تو ہندوستانی روایات کو شرمسار کرنے والا واقعہ پیش آیا جہاں ایک وحشی جنونی نے ماں جیسے رشتہ کی حرمت کو تار تار کردیا ۔ کرناٹک میں لوک آیوکت کے تعلق سے سوال کیا جا رہا ہے لیکن یہ جواب کوئی دینے تیار نہیں ہے کہ بی جے پی اقتداروالی کتنی ریاستوں میں لوک آیوکت بنایا گیا ہے اور خود وزیر اعظم یہ بتانے کے موقف میں نہیں ہے کہ چار سال کی حکومت میں انہوں نے قومی سطح پر اب تک لوک پال کے سلسلہ میں کیا کچھ کیا ہے ۔ کرناٹک کے سرکاری دواخانو ںکی حالت زار پر سوال کیا جا رہا ہے لیکن اس بات کا تذکرہ کوئی نہیں کر رہا ہے کہ یوگی حکومت میں گورکھپور کے سرکاری دواخانہ میں درجنوں شیر خوار اور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلادیا گیا کیونکہ وہاں کوئی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں تھیں اور انہیں آکسیجن تک فراہم نہیں کیا گیا تھا ۔
عوامی مسائل پر دوہرے معیارات اختیار کرنے والی بی جے پی جھوٹے پروپگنڈہ کے ساتھ نفرت انگیز مہم پر بھی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔ اسمبلی انتخابات کو ہندووں و مسلمانوں کے مابین لڑائی قرار دیا جا رہا ہے ۔ ہندو راشٹر کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دستور میں تبدیلی کے نعرے دئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی ارکان اسمبلی شرانگیزی کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ وہ فرقہ پرستانہ مہم کے ذریعہ کامیابی حاصل کرناچاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ترقی کے نام پر عوام سے رجوع ہونے کیلئے کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کی بجائے انہیں شابا شی دی جا رہی ہے جو سماج میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ محض ایک ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے ملک میں سماج کا شیرازہ بکھیرنا انتہائی مذموم اور قابل مذمت فعل ہے ۔ فرقہ پرستوں کو اور ان کے کھلے اور پوشیدہ حواریوں کو سبق سکھانا کرناٹک کے عوام کی ذمہ داری ہے ۔ ملک میں تبدیلی کی لہر پیدا کی جاسکتی ہے اور اس کی شروعات کرناٹک کے باشعور رائے دہندوں کو کرنی ہوگی ۔