سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کا سروے ، بی جے پی کی جارحانہ مہم کا امکان
حیدرآباد۔28مارچ(سیاست نیوز) کرناٹک اسمبلی انتخابات میں رائے دہندوں کی آبادی اور ان کے تناسب کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکمت عملی تیار کی جانے لگی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مجوزہ اسمبلی انتخابات پر مذہب اور ذات پات کو اثر انداز کرنے کی حکمت عملی تیار کی جانے لگی ہے اور سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے طور پر سروے کروانا شروع کردیا ہے ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے شیڈول کی اجرائی کے فوری بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں جارحانہ انتخابی مہم چلانے کی حکمت عملی تیار کئے ہوئے ہے اور اس مہم کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات کو متحد کیا جائے بلکہ بی جے پی کی منظم حکمت عملی میں اقلیتی رائے دہندوں بالخصوص مسلمان اور عیسائیوں کے ووٹوں کی تقسیم بھی شامل ہے اس مقصد کیلئے کن سیاسی جماعتوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا آلۂ کار بنائے گی یہ گذشتہ ایک سال سے کہا جا رہاہے اور اس بات کی قوی امید کی جا رہی ہے کہ ’’ووٹ کٹوا‘‘ اور ’’آپا‘‘ دونوں کو ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مقصدکیلئے استعمال کرے گی اور اس مقصد کے حصول کیلئے ان اسمبلی حلقہ جات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں مسلم ووٹوں کی تقسیم سے اکثریتی طبقہ کے امیدوار کا فائدہ ممکن ہو سکتا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ ووٹ کٹوا نے اپنے امیدواروں کیلئے نشستوں کا انتخاب کرلیا ہے جبکہ آپا کو ابھی زعفرانی جھنڈی کا انتظار ہے تاکہ وہ اس بات کو قطعیت دے سکے کہ انہیں کتنے امیدوار میدان میں اتارنے ہیں۔ کرناٹک کے رائے دہندوں میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد 75 لاکھ سے متجاوز کرچکی ہے اور یہ تعداد 12.5 فیصد ہے جو کہ اسمبلی انتخابات میں زائد از50نشستوں پر اثر انداز ہونے والے ہیں اسی طرح شیڈول کاسٹ کی آبادی 1.8 کروڑ ہے جو کہ 18 فیصد ہوتے ہیںاس کے علاوہ لنگائیت کو مذہب کا درجہ دیئے جانے کے بعد 9.8لنگائیت کے ووٹ بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہو چکے ہیں اور ان ووٹوں کے کانگریس کی جانب جھکاؤ کے آثار بڑھتے جا رہے ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف لنگائیت کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ مسلم ‘ عیسائی اور لنگائیت ووٹوں کی تقسیم کی حکمت عملی میں مصروف ہے۔ کانگریس حکومت کی جانب سے لنگائیت طبقہ کو رجحانے کی ناکام کوشش کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے یدی یورپا کو لنگائیت سماج کے ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کا آغاز کیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلی قیادت اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ کرناٹک میں بھی مسلمان زعفرانی سیاسی جماعت کو کسی بھی قیمت پر ووٹ نہیں دے سکتے ہیں تو اسی لئے یہ ضروری ہے کہ 12.5 فیصد مسلم ووٹ کو متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں جانے سے روکنے کیلئے انہیں بہر صورت تقسیم کروانا ضروری ہے جبکہ کانگریس دلتوں اور پسماندہ طبقات کے علاوہ مسلمانوں کے ووٹوں پر انحصار کئے ہوئے ہے اور اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ لنگائیت سماج کے ووٹ کا بڑا حصہ حاصل کرے لیکن کہا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے لنگائیت ووٹوں کے حصول کیلئے یدی یورپا کو لنگائیت سماج کے چیمپئین کے طور پر پیش کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ ان ووٹوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا مناسب حصہ حاصل کرے گی۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانکنی مافیا کی دولت کا بھی کھل کر استعمال کئے جانے کا امکان ہے کیونکہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو دولت درکار ہے وہ کرناٹک میںکانکنی مافیا کی جانب سے ہی فراہم کی جا سکتی ہے اورکانکنی اسکام میں ملوث خاندان اب بھارتیہ جنتا پارٹی سے قربت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ریاست کرناٹک میں لنگائیت ‘ مسلمان‘ شیڈول کاسٹ کے علاوہ وکا لیگا‘ کروبا ‘ قبائیلی اور برہمن رائے دہندوں کے رجحانات بھی ریاست میں سیکولر حکمرانی کی سمت ہونے کے باعث بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے اسی لئے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ووٹ کے حصول سے زیادہ سیکولر ووٹ کی تقسیم پرتوجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ ریاست کرناٹک کے انتخابات کو بھارتیہ جنتا پارٹی قیادت کی جانب سے انتہائی اہم اور 2019 کا کوارٹر فائنل تسلیم کیا جا رہاہے کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں اقتدار کے حصول کے ذریعہ اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ جنوبی ہند میں اپنے قدم جمائے اور بی جے پی کو اس بات کا اچھی طرح سے احساس ہے کہ ریاست کرناٹک اور جنوبی ہند میں بہ آسانی فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوئے کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ہندو مذہب کے مختلف طبقات میں خوف و دہشت پیدا کرتے ہوئے انہیں دیگر مذاہب کے ماننے والوں بالخصوص مسلمانوں سے متنفر نہیں کیا جاسکتااسی لئے بی جے پی کی کوشش یہ ہے کہ ووٹ کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے ۔