میں اپنی راہ کے پتھر بھی گِن نہ پایا تھا
کہ ایک سنگِ گراں سر پہ بے حساب آیا
کرناٹک ‘ اختلافات کی یکسوئی ضروری
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی صورتحال پوری طرح سے مستحکم نہیں ہو پائی ہے ۔ حالانکہ ریاست میں کانگریس ۔ جے ڈی ایس کی اتحادی حکومت قائم ہوچکی ہے اور اس نے بتدریج اپنا کام بھی شروع کردیا ہے لیکن اس حکومت کے کام کاج میں رکاوٹیں اور مشکلات واضح ہونے لگی ہیں۔ دونوں گوشوں سے حالانکہ اس کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہئے لیکن کانگریس بظاہر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ جنتادل ایس کی جانب سے وقفہ وقفہ سے اس اتحاد کے تعلق سے اور کانگریس کے تعلق سے تبصرے اور ریمارکس کئے جا رہے ہیں۔ ابتداء میں اپنی حکومت کو کانگریس کے رحم و کرم پر قرار دینے والے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی نے کہا کہ وہ کسی کے رحم و کرم پر نہیںہیں۔ کانگریس کے رحم و کرم پر بھی نہیں ۔ وہ ریاست کے چیف منسٹر ہیں اور وہ عوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دینگے ۔ اب جے ڈی ایس کے بانی و سربراہ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے بھی کانگریس کے تعلق سے سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کی تائید کو طئے شدہ نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ بظاہر دیوے گوڑا نے یہ ریمارکس قومی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے پس منظر میں کئے ہیں لیکن ان ریمارکس کو ریاست میں اتحادی حکومت کے کام کاج اور اس میں ہونے والی رکاوٹوں سے علیحدہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ریاست میں جس وقت سے کانگریس اور جے ڈی ایس نے اتحاد کیا ہے اور حکومت تشکیل دی ہے اسی وقت سے دونوں کیلئے مشکلات اور پریشانیوں کا آغاز ہوچکا تھا ۔ قلمدانوں کی تقسیم میں تاخیر ہوئی تھی اور اب ریاستی بجٹ کی تیاری کے مسئلہ پر بھی اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ کانگریس میں کچھ قائدین نہیں چاہتے کہ کمارا سوامی اس سال کا پورا بجٹ پیش کریں۔ اس کیلئے کانگریس کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانے پر بھی اصرا ہو رہا ہے جبکہ کمارا سوامی اس معاملہ میں مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں جماعتوں کا ادعا ہے کہ وہ ریاستی عوام کی بہتری چاہتے ہیں لیکن ان کے مابین اس مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے اور اختلافات بڑھ رہے ہیں۔
کانگریس اور جے ڈی ایس دونوں ہی کو ریاست میں اتحاد کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے تعلق سے کام کرنے کی ضرور ت ہے ۔ کانگریس کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ریاست میں اگر یہ اتحاد ٹوٹ گیا تو اس کے ملک گیر سطح پر اپوزیشن اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ رائے دہندوں کا ذہن بھی منتشر ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح جے ڈی ایس کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست میں کانگریس نے 78 اسمبلی نشستیں رکھنے کے باوجود کمارا سوامی کو وزارت اعلی کی کرسی پیش کی ہے اور اہم قلمدانوں کے تعلق سے بھی اس نے جے ڈی ایس کے مطالبات کو بڑی حد تک قبول کیا ہے ۔ اس اعتبار سے کانگریس کے تعلق سے کسی طرح کے منفی ریمارکس یا اندیشوں کے اظہار سے جے ڈی ایس کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ہی جماعتوں کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ریاست میں بی جے پی کسی موقع کی تاک میں لگی ہوئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کسی طرح اس اتحادی حکومت کو زوال کا شکار کردیا جائے تاکہ اسے اقتدار حاصل کرنے کا موقع مل سکے ۔ بی جے پی کی جانب سے اس تعلق سے در پردہ سرگرمیاں شروع بھی ہوچکی ہیں اور ریاست میں بی جے پی لیڈر بی ایس ایڈورپا خاموش نہیں بیٹھے ہیں۔ وہ اپنی سوچ کے مطابق بساط بچھانے میں مصروف ہیں اور جب کبھی انہیں موقع مل جائیگا وہ اسے ضائع ہونے نہیں دینگے ۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایڈورپا کی کوششوں کو بی جے پی مرکزی قیادت کی تائید حاصل ہے ۔
کانگریس نے ریاست میں ضرور وسیع القلبی کے ساتھ کام کرتے ہوئے جے ڈی ایس کو حکومت سازی کا موقع دیا ہے لیکن اسے محض کرناٹک کے اقتدار کی فکر کرنے کی بجائے 2019 کے عام انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ آئندہ عام انتخابات میں اگر کانگریس ملک گیر سطح پر بہتر مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر ریاست میں اسے اپنی گرفت کو مضبوط کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی ۔ اس کے برخلاف اگر کرناٹک میں اتحاد اور مخلوط حکومت کیلئے کچھ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں تو اس کے اثرات ملک گیر سطح پر مرتب ہونے کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ وسیع تر قومی مفاد اور اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کو اسی طرح وسیع القلبی کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور جے ڈی ایس کو بھی اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔