کرناٹک ‘ اتحادی حکومت کیلئے مشکلات

برابر کا حق ہے بہاروں پہ لیکن
گزرتی ہے اپنی گھٹن کی فضاء میں
کرناٹک ‘ اتحادی حکومت کیلئے مشکلات
کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس اتحاد نے اپنی حکومت تشکیل دیدی ہے ۔ وہاں اس حکومت نے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرلیا ہے اور نئی کابینہ بھی تشکیل دیدی گئی ہے ۔ نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس اتحادی حکومت کیلئے مشکلات اور پریشانیاں شروع ہونے لگی ہیں۔ ویسے تو کسی بھی کابینہ کی تشکیل کے بعد ہر ریاست میں مخالفانہ آوازیں اٹھنی شروع ہوتی ہیں۔ وزارتی عہدوں کے خواہشمند ارکان اسمبلی کی جانب سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور کچھ وقت کے بعد یہ آوازیں دھیرے دھیرے یاتو خاموش ہوجاتی ہیں یا پھر عملا بغاوت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ یہ آوازیں کچھ وقت گذرنے کے ساتھ دوسرے عہدوں اور اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش ہی ہوجاتی ہیں۔ تاہم کرناٹک کا جہاں تک سوال ہے وہاں بی جے پی تاک لگائے بیٹھی ہے اور وہ ایسے ناراض کانگریس و جے ڈی ایس ارکان اسمبلی کو لالچ دینے سے پیچھے نہیںہٹے گی جو فی الحال کابینہ میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہیں۔ یہ ارکان اسمبلی بی جے پی کیلئے آسان شکار ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کو قابو میں کرنا دونوں ہی جماعتوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ اس حکومت کی بقا ان ارکان اسمبلی کو سمجھانے منانے پر ہے ۔ کانگریس کی قیادت اور جے ڈی ایس کی قیادت دونوںکو چاہئے کہ وہ ان ارکان اسمبلی کو اعتماد میں لینے کیلئے فوری حرکت میں آئے اور ان کی ناراضگی کو ممکنہ حد تک دور کرنے کیلئے سرگرم ہوجائے ۔ کرناٹک میں ویسے بھی بی جے پی کی جانب سے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی کوششیں منظر عام پر آچکی ہیں اور ان ارکان اسمبلی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے سے وہ انہیں خرید نہیں سکی ہے ۔ لیکن اب جبکہ یہ ارکان اسمبلی آزاد ہیں اور ایک کوشش کے بعد دوسری کوشش ِضرور کی جاسکتی ہے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس اور جے ڈی ایس کی قیادت کو ان ارکان اسمبلی کو منانے اور انہیں مطمئن کرنے کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسرے بھی کئی عہدے ہیں جو انہیں دئے جاسکتے ہیں اور مطمئن کیا جاسکتا ہے ۔
کرناٹک میں تشکیل پائی کمارا سوامی حکومت فی الحال نئی ہے ۔ اس کے سامنے ریاست کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے نمٹنے کا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ اگر حکومت اپنے استحکام کے تعلق سے ہی فکرمند ہوجائے اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہوجائے تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے سامنے جو ریاست کی بہتری اور ترقی کو یقینی بنانے کا چیلنج ہے وہ پورا نہیں ہو پائیگا ۔ ریاست میں کسانوں کو مسائل درپیش ہیں۔ ریاست کی ترقی کو تیز رفتار کرنے کا چیلنج ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ ان کو بھی ناکام بنانا حکومت کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے ۔ ویسے توکما را سوامی ریاست میں حکمرانی کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن گذرتے وقت کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے ۔ حکمرانی کوئی ایک فارمولے اور طئے شدہ ضابطہ کے تحت نہیں ہوسکتی ۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نئی صورتحال درپیش ہوتی ہے اور اسی کے مطابق حکومت کو کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حکومت کے فیصلوں پر عوام کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں اگر حکومت کو اپنی بقا پر زیادہ توجہ دینی پڑ جائے اور عوامی مسائل پر اس کی توجہ کم ہوجائے تو اس سے عوام میں بھی ناراضگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ جو حالات پھر پیدا ہونگے اس کا استحصال کرنا بی جے پی کیلئے زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ وہ ان حالات کو اپنے حق میں سازگار بنانے کیلئے کوئی بھی کھیل کھیل سکتی ہے اور ارکان اسمبلی کو لالچ دینا مشکل نہیں رہ جائیگا ۔
کمارا سوامی حکومت کے علاوہ کانگریس و جے ڈی ایس قیادت کو بی جے پی کے عزائم اور منصوبوں کے تعلق سے بھی عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ اطلاعات ابھی سے منظر عام پر آ رہی ہیں کہ بی ایس ایڈورپا ان ناراض کانگریس و جے ڈی ایس ارکان اسمبلی کو رجھانے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ وہ ان ارکان کی سرگرمیوںپر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنے طور پر ایک حاشیہ پیدا کرتے ہوئے ان کی ناراضگی کو مزید ہوا بھی دینا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں کرناٹک میں بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنانا کمارا سوامی حکومت کی اولین ترجیح ہوجائیگا ۔ حکومت کو اس کے کام کاج پر توجہ دینے کا موقع فراہم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کانگریس اور جے ڈی ایس کی قیادت یہ ذمہ داری نبھائے اور اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھے اور ان کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے ناراضگی کو دور کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔