کجریوال کے احتجاج سے نمٹنے میں پولیس کی ناکامی پر سپریم کورٹ کی برہمی

نئی دہلی ۔ /24 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کے دستوری عہدہ پر رہتے ہوئے سڑکوں پر احتجاجی دھرنے کی قیادت کا واقعہ اب سپریم کورٹ کے زیر تنقیح آگیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی بھی سخت سرزنش کی جنہوں نے قومی دارالحکومت کے مرکزی مقام پر کجریوال کے حامیوں کو جمع ہونے کی اجازت دی تھی ۔ عدالت عظمیٰ نے ریل بھون کے باہر ہندوستانی تعزیری ضابطہ کی دفعہ 144 نافذ رہنے کے باوجود وہاں لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت جیسی پولیس کی ناقص کارکردگی پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آر ایم لودھا اور جسٹس شیواکیرتی سنگھ پر مشتمل ایک بنچ نے دہلی کے پولیس کمشنر بی ایس بسی سے دریافت کیا کہ ’’ آخر وہ (لوگ) کس طرح جمع ہوپائے جب وہاں دفعہ 144 نافذ کے تحت امتناعی احکام نافذ تھے ۔ اولاً آپ نے ایسا ہونے ہی کیوں دیا جبکہ چند لوگ پہلے وہاں جمع تھے ‘‘ ۔ بنچ نے مزید کہا کہ پولیس نے وہاں افراد کو جمع ہونے ہی کیوں دیا جس نے امتناعی احکام کی خلاف ورزی ہورہی تھی ۔ ہم یہ جاننے سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیا پولیس نے کوئی کارروائی بھی کی تھی ‘‘ ۔

بنچ نے کہا کہ ’’ پانچ کو جمع ہونے کی اجازت سے یہ تعداد 500 ہوگئی اور بڑھ کر ہزاروں تک چلی گئی ‘‘ ۔ بنچ نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ ’’ اولین ذمہ داری یہ دیکھا جاتا تھا کہ آیا دستوری دفعات کا احترام بھی کیا گیا تھا ؟‘‘ سپریم کورٹ بنچ نے اس مسئلہ پر کمشنر پولیس سے /31 جنوری تک وضاحت طلب کی ہے اور سوال کیا ہے کہ آیا کیوں کجریوال کے دھرنا کے مقام پر افراد کو غیر قانونی طور پر جمع ہونے کی اجازت دی گئی تھی ۔ عام آدمی پارٹی ان پولیس ملازمین کے خلاف کاررائی کا مطالبہ کررہی ہے جنہوں نے قحبہ گری اور منشیات کے ایک ریاکٹ پر دھاوا کرنے سے انکار کردیا جبکہ ریاستی وزیر قانون سومناتھ بھارتی نے پولیس کو دھاوا کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ بنچ نے اپنے احکام میں کہا کہ ’’ ہم دو سوالات پر جواب طلب کرتے ہیں ‘‘ ۔ آخر کیا وجہ تھی کہ دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکام نافذ رہنے کے باوجود پانچ یا اس سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر جمع ہونے کی اجازت کیوں دی گئی ۔ دوسرا سوال یہ کہ آیا قانون نافذ اداروں ؍ پولیس نے مناسب انداز میں کام کیا ہے ۔

آیا غیر قانونی طور پر جمع ہونے والوں کو جلد وہاں سے منتشر کرنے کیلئے کوئی اقدامات بھی کئے گئے تھے ۔ 129(1) ‘ 129(2) کے تحت بھی افراد کا جمع ہونا غیرقانونی تھا جنہیں منتشر کرنے کی قانونی گنجائش تھی اور واضح احکام کے باوجود افراد کے اجتماع کو کیوں منتشر نہیں کیا گیا ۔ یہ بنچ ایک ایم ایل شرما ایڈوکیٹ کی طرف سے دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت کررہی تھی ۔ جس کی بنیاد پر حکومت دہلی اور اس کے علاوہ مرکزی وزارت داخلہ کے توسط سے مرکز کو نوٹس جاری کی ہے اور اندرون چھ ہفتہ جواب طلب کیا ہے ۔ مرکز اور ریاستی حکومت سے سوال کیا گیا ہے کہ آیا کسی دستوری عہدہ پر فائز رہنے والا شخص قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسطرح ایجی ٹیشن شروع کرسکتا ہے ۔ بنچ نے کہا کہ ’’ دستور سب سے بالاتر ہے اور ہر ادارہ ‘ دستور کی اختراع ہے ۔