کجریوال کا مودی سے مقابلہ ، ’سیکولر‘ پارٹیوں کا نقصان

وارانسی ۔27 مارچ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) عام آدمی پارٹی لیڈر اروند کجریوال نے نریندر مودی کو جو چیلنج پیش کیا ہے وہ اس پارٹی کے وسیع تر منصوبہ کا حصہ ہے کہ اترپردیش اور ملک بھر میں مسلم ووٹروں کو راغب کیا جاسکے کیونکہ اُسے مخالف بی جے پی ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے جو بصورت دیگر دوسری ’’سیکولر‘‘ پارٹیوں کے حصہ میں جانے والے تھے ۔ جب کجریوال نے بی جے پی کے وزارت عظمیٰ امیدوار مودی کے مقابلہ کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی تمام پارٹیوں کے درمیان ہمہ رخی لڑائی چھڑگئی جس سے ممکنہ طورپر عام آدمی پارٹی کو فائدہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ کجریوال کو ایسے واحد لیڈر کے طورپر دیکھا جائے گا جو مودی کا براہ راست مقابلہ کررہے ہیں ۔

عام آدمی پارٹی کے ذریعہ نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی کو اُس کے حصہ کی نشستیں حاصل ہوجائیں گی لیکن ناکامی سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس کے حصہ میں آئے گی کیونکہ تمام اقلیتیں عام آدمی پارٹی کو ہی اپنے کاز کے محافظ کے طورپر دیکھیں گے ۔ اس ذریعہ نے مزید کہا کہ حقیقی اثر ان تمام پارٹیوں پر پڑے گا جبکہ عام آدمی پارٹی اقلیتی ووٹوں پر انحصار کررہی ہے بالخصوص مظفرنگر کے فسادات یہاں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔

چنانچہ مودی کے مقابلہ کا فیصلہ کرنے میں کجریوال کا یہ منصوبہ بھی عیاں نظر آتا ہے کہ وہ یوپی کے اقلیتی ووٹوں کے ایک بڑے حصہ پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ عام آدمی پارٹی ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس کے زیرقبضہ نشستوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور اُسے امید ہے کہ مخالف حکومت عنصر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے معاملے میں اُس کے کام آئے گا ۔ کجریوال مودی کو 2002 کے گجرات فسادات پر نشانہ نہ بناتے ہوئے سونچے سمجھے منصوبہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ کام تو دیگر پارٹیوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مودی پر تو کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ اُن کے حریفوں کی چال اُلٹی پڑ گئی ۔ کجریوال نے مودی اور بی جے پی کو فرقہ پرستی کے تعلق سے بالواسطہ طورپر نشانہ بنایا ہے اور خصوصیت کے ساتھ گجرات فسادات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ وہ مودی کو ریلائنس گیاس کے مسئلے پر بھی نشانہ بنارہے ہیں

۔ مثال کے طورپر اس ماہ کے اوائل کانپور میں منعقدہ ریالی میں اپنی تقریر میں کجریوال نے فرقہ پرستی اور فسادات کا مسئلہ چھیڑا اور الزام عائد کیا کہ سیاسی جماعتوں نے عام حالات کو کشیدہ بنانے اور اُن کا سیاسی فائدہ اُٹھانے کیلئے فسادات کرائے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ فسادات کے بعد مسلمان ایس پی کی آغوش میں آگئے اور کانگریس کا ہاتھ تھامنے لگے ہیں جب کہ ہندو بی جے پی کے ساتھ ہوگئے ہیں ۔ اکثر و بیشتر فسادات انتخابات سے کچھ قبل ہوتے ہیں۔