اگرچہ وہ بہت ٹوٹا ہوا ہے
مگر پھر بھی وہ آئینہ بنا ہے
کجریوال حکومت اور مرکز
دہلی میں تمام ریکارڈز توڑ کر غیر متوقع اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والی کجریوال حکومت کیلئے ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی میں اکثریت رکھنا ہی کافی نہیں ہے اور اس کیلئے مرکز کی نریندر مودی حکومت کے اشاروں پر کام کرنا بھی ضروری ہوگا اگر اسے کسی رکاوٹ کے بغیر کام کرنا ہے ۔ گذشتہ تین دن سے دہلی میں ایک عوامی منتخبہ حکومت کو جس طرح سے افسر شاہی نے حاشیہ پر لا کھڑا کردیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ افسر شاہی اپنے طور پر کام نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مرضی سے اس کو استعمال کر رہا ہے ۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ افسر شاہی ‘ جو کسی کے اشاروں پر نہیں بلکہ عوام کی بہتری کیلئے کام کرنے کیلئے ہوتی ہے ‘ وہ اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے میں جٹی ہوئی ہے اور اس ساری کوشش میں دہلی کے عوام کو جو مسائل پیش آ رہے ہیں ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت پہلے تو دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو استعمال کرتے ہوئے کجریوال حکومت کو نشانہ بنانے میں جٹی ہوئی تھی ۔ اس کے تقریبا ہر کام میںرکاوٹ پیدا کی جا رہی تھی ۔ گورنر کے ذریعہ حکومت کے فیصلوں کو بدلنے کی کوششیں ہو رہی تھیں اور اب یہی مرکزی حکومت ایسا لگتا ہے کہ افسر شاہی کو بھی استعمال کرنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تین دن سے دہلی میں انتظامیہ کو ٹھپ کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ کسی کام کاج کو آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے ۔ معاملہ دہلی کے چیف سکریٹری کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کا ہے ۔ چیف سکریٹری کا الزام ہے کہ چیف منسٹر کے گھر منعقدہ اجلاس میں چیف سکریٹری کے ساتھ عا م آدمی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے مبینہ طور پر بدسلوکی کی ہے اور انہیں دھکم پیل کا شکار کردیا گیا ہے ۔ اس ساری دھینگا مشتی میں ان کی عینک بھی گر کر ٹوٹ گئی ۔ واقعی اگر ایسا ہوا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ چیف سکریٹری ایک قابل احترام اور ذمہ دار عہدہ ہوتا ہے اورا س عہدہ پر فائز شخص کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ لیکن اس واقعہ کو بنیاد بنا کر افسر شاہی کو عوام کے ذریعہ منتخبہ حکومت کے مد مقابل لا کھڑا کرنا بھی درست نہیں ہوسکتا ۔ دہلی میں ایسا ہی ہوا ہے ۔مرکز ی حکومت کی ایما پر افسر شاہی کو ایک جمہوری اور عوامی منتخبہ حکومت کے مد مقابل لا کھڑا کردیا گیا ہے ۔
جو واقعہ چیف سکریٹری کے ساتھ پیش آیا ہے وہ افسوسناک ہے اور اس کی مذمت بھی کی جانی چاہئے ۔ لیکن اس طرح کے واقعہ کے جواب میں جس طرح سے ریاست کے وزرا کو سیکریٹریٹ میں عہدیداروں اور ملازمین نے حملہ کا نشانہ بنایا وہ بھی اس سے زیادہ افسوسناک بات ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے والے انتظامیہ کے دو عنصر اگر ایک دوسرے کے مد مقابل آجائیں اور ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرنے لگیں تو یہ جمہوریت کی تذلیل ہے ۔ مرکزی حکومت کو دہلی میں مداخلت ضرور کرنی چاہئے تھی تاہم یہ مداخلت مسئلہ کی یکسوئی کرنے کیلئے ہونی چاہئے تھے ۔ جہاں چیف سکریٹری کا عہدہ قابل قدر ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کجریوال حکومت کو بھی دہلی کے عوام نے زبردست اکثریت کے ساتھ منتخب کیا ہے ۔ جہاںچیف سکریٹری پر حملہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے وہیں عوام کی خدمت کیلئے نامزد کئے گئے وزیر پر حملہ بھی قابل مذمت ہی ہے ۔ ان دونوں واقعات میں ایک کے ساتھ ایک سلوک اور دوسرے سے دوسرا سلوک نہیں کیا جاسکتا ۔ دونوں واقعات بدبختانہ ہیں اور ان کا سیاسی مقاصد کیلئے یا ایک جمہوری حکومت کو بدنام کرنے کیلئے استحصال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس مسئلہ کی یکسوئی کیلئے سب کو کوشش کرنی چاہئے تھی اور اس کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ تاہم مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت حکومت ایسا لگتا ہے کہ اس سارے واقعہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور کجریوال حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش میں جٹ گئی ہے ۔
ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر ساری ریاست کے انتظامیہ کو یرغمال بنالینا درست نہیں ہے ۔ عہدیدار عوام کے ذریعہ منتخبہ نمائندوں اور حکومتوں کو جوابدہ ہوتے ہیں لیکن اگر یہی عہدیدار ایک جمہوری حکومت کو خاطر میں لانے سے گریز کریں تو پھر ان کا وجود بھی مشکوک ہوجاتا ہے ۔ یہ اندیشے تقویت پانے لگتے ہیں کہ وہ اپنے عہدہ کے تقاضوں کی بجائے سیاسی اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا ملک کی جمہوریت سے کھلواڑ ہے اور ایسا کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ مرکز نے چیف منسٹر کی قیامگاہ پر پولیس کو روانہ کرتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ محض سیاسی فائدہ کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے ۔ چیف منسٹر کو عوام کی نظروں میں رسوا کرنے کی یہ کوشش ‘ چیف سکریٹری کے ساتھ مبینہ بدسلوکی سے زیادہ مذموم اور افسوسناک ہے اور ایسی کوششوں اور سیاسی مقصد براری سے مرکز کو گریز کرنا چاہئے ۔