نئی دہلی ۔ 20 جنوری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال اور ان کے وزراء نے حیرت انگیز اقدام کے طورپر آج یہاں ریل بھون کے باہر دھرنا منظم کرتے ہوئے ان پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جنھوں نے جنوبی دہلی میں گزشتہ ہفتے منشیات اور قحبہ گری کے ایک ریاکٹ پر دھاوا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ کجریوال نے انتہائی سخت سکیورٹی والے قومی اقتدار کے مرکزی مقام کے قریب نافذ امتناعی احکام کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے چھ وزراء کے ساتھ نارتھ بلاک کی سمت پیش قدمی کی کوشش کی تاکہ وہاں موجود وزارت داخلہ پہونچ کر اپنا احتجاج درج کروایا جاسکے ۔ لیکن انھیں ریل بھون کے قریب روک دیا گیا کیونکہ یوم جمہوریہ تقاریب کی تیاریوں کے سلسلہ میں وجئے چوک اور راج پتھ کے سارے علاقہ کی ناکہ بندی کردی گئی ہے ۔ تاہم ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہاکہ کجریوال کو اپنی ٹیم کے ہمراہ نارتھ بلاک جانے کی اجازت دی گئی لیکن انھوں نے اپنے حامیوں اور ایم ایل ایز کے ساتھ ریل بھون کے باہر دھرنا شروع کردیا۔ پولیس نے بتایا کہ ابتداء میں چیف منسٹر کے قافلے کو 11:25 بجے دن نارتھ بلاک کی سمت بڑھنے سے روکا گیا تھا جس پر چیف منسٹر زائد از 20 منٹ پولیس کے ساتھ اُلجھے رہے ۔
بعد ازاں اُنھیں آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا ۔ کجریوال نے دھرنا کے مقام پر اپنے ارکان اسمبلی اور حامیوں سے خطاب میں آج کی صورتحال کیلئے مرکز ، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو مورد الزام ٹہرایا اور کہا کہ وہ 10 دن کی تیاری کے ساتھ یہاں پہونچے ہیں اور اگر ضروری ہو تو اس ایجی ٹیشن کو مزید مدت تک جاری رکھا جائے گا ۔ انھوں نے کہا کہ یوم جمہوریہ تقاریب کے انعقاد و انصرام میں خلل اندازی اور اس بحران سے پیدا ہونے ولی صورتحالی کی ذمہ داری مرکز پر عائد ہوگی ۔ منشیات اور قحبہ گری کے ریاکٹ کے بارے میں تحقیقات کے بعد ہی کارروائی کرنے مرکزی وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کجریوال نے ان رشوت خور عہدیداروں کو فی الفور معطل کرنے کا مطالبہ کیا جنھوں نے ان ( کجریوال) کے وزیرقانون سومناتھ بھارتی کی طرف سے عوامی مفاد کے کاز کے مطابق کارروائی کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ وزیر قانون سومناتھ چند حامیوں کے ساتھ گزشتہ ہفتے اپنے حلقہ مالویہ نگر میںو اقع ایک اپارٹمنٹ پر جمع ہوگئے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ اس میں مقیم افریقی خواتین قحبہ گری و منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ انھوں نے پولیس سے اس اپارٹمنٹ پر دھاوا کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پولیس نے وارنٹ کی عدم موجودگی کا عذربتاتے ہوئے دھاوے سے انکار کردیا ۔ عام آدمی پارٹی ورکرس نے مبینہ طورپر یوگانڈا سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پیشاب کے نمونے دینے پر زبردستی مجبور کیا تھا ۔ اس اقدام پر تقریباً تمام گوشوں سے تنقیدیں کی گئیں لیکن عام آدمی پارٹی بدستور اس مطالبہ پر مصر رہی کہ خاطی پولس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی چیف منسٹر اور ان کی ساری کابینہ نے اپنے مطالبات پر دباؤ ڈالنے کیلئے مرکزی حکومت کے خلاف دھرنا منظم کیا ہے ۔ کجریوال نے دیانتدار ملازمین پولیس سے درخواست کی کہ وہ بھی رخصت حاصل کرتے ہوئے ان کے احتجاج میں شامل ہوجائیں اور اپنے خاطی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کے مطالبہ کی تائید کریں۔
کجریوال نے دھرنا منظم کرنے اپنے اقدام کی بھرپور مدافعت کی اور وہاں موجود افراد سے سوال کیا کہ آیا ڈنمارک کی ایک خاتون کی عصمت ریزی کیس کے لاپرواہ پولیس افسران کی معطلی کا مطالبہ کرنا غلط ہے؟ یا پھر ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا بھی غلط ہے جو ایک خاتون کی حفاظت کیلئے ان کے کابینی رفقاء کی طرف سے روانہ کردہ مکتوب کے مطابق کارروائی کرنے میں ناکام ہوگئے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ اس خاتون کو بعد ازاں زندہ جلادیا گیا۔ کجریوال نے کہا کہ وہ صرف ان ملازمین پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں جو جنوبی دہلی میں قحبہ گری اور منشیات کا کاروبار روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ کجریوال نے کہاکہ احتجاجی دھرنا سے ان کی حکومت کے کام متاثر نہیں ہوں گے جیسا کہ انھوں نے عملاً مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کی جانب سے ’’انقلاب زندہ باد ‘‘ کے نعروں کی گونج میں کئی سرکاری کاغذات اور فائیلوں پر دھرنا کے مقام سے ہی دستخط کئے۔ پولیس نے اس انتہائی سخت سکیورٹی والے علاقہ میں امتناعی احکام کا حوالہ دیتے ہوئے کجریوال سے کہا ہے کہ وہ اپنا احتجاج جنتر منتر کو منتقل کردیں۔ پولیس نے یہ بھی واضح کردیا کہ اس علاقہ میں احتجاج جاری رکھنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی ۔