مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
خالق کائنات نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام وحوا علیہاالسلام سے انسانوں کا سلسلہ جاری فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیا اور اسی سے ان کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پھیلائے۔ (۴؍۱)
اس کائنات میں نسل انسانی کے تحفظ کی غرض سے خالق کائنات نے انسانوں کو ایسی قویٰ ودیعت فرمائی ہیں جو نسل انسانی کی حفاظت کا ذریعہ ہیں اور اس کے لئے ایک پاکیزہ طریقہ ’’نکاح‘‘ کا مقررفرمایا ہے، جو کہ ابتدائے آفرینش سے جاری و ساری ہے۔ اسلام نے اس پاکیزہ طریقہ کے سوا سارے غیر پاکیزہ طریقوں کو حرام قرار دے کر اس بُرائی پر روک لگادی ہے۔ وہ مذاہب جو اگرچہ کہ باطل پر ہیں، وہ بھی شادی کے بغیر مردوعورت کے درمیان قائم کئے جانے والے جنسی تعلق کو بُرا مانتے ہیں۔ اس سے مقصود یہی ہے کہ نسل انسانی کو فروغ ملے اور اس کا تحفظ ہوتا رہے۔ اپنی زندگی کے لمحات ختم کرکے بحکم الہٰی اس کی بارگاہ میں پہنچنے والے انسانوں نے جو جگہ خالی کردی ہے، نئے پیدا ہونے والے بچے ان کی جگہ لیں، اس طرح یہ دنیا انسانوں سے تاقیام قیامت معمور رہے اور تخلیق انسانی سے مشیت ایزدی کا جو مقصود ہے وہ پورا ہوتا رہے۔ ظاہر ہے کہ مشیت کو یہی منظور ہے کہ نکاح کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کثرت سے اولاد پیدا کریں، اسلام نے کثرت اولاد کی حمایت کی ہے اور بلا کسی ضرورت شدید اس پر روک لگانے سے منع کیا ہے۔ مغربی تہذیب نے جہاں غیر فطری زندگی کے طور طریق اختیار کرکے اسلام کے فطری اصولوں کی مخالفت کی ہے، وہیں اس نے مادی اسباب کے حوالہ سے مشیت ایزدی کے فطری منصوبہ سے انسانوں کو بغاوت پر آمادہ کیا ہے۔
کثرت اولاد کے نقائص کی وضاحت کرتے ہوئے فقر و محتاجی، بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی اور ان کے لئے پرتعیش اسباب زندگی کی عدم فراہمی جیسے خوش کن نعرے دے کر مادہ پرست انسانوں کے دل و دماغ پر قبضہ جمایا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ باطل پر کاربند انسانوں کے ساتھ حق پر قائم افراد نے بھی مادیت کے سیلاب میں بہہ کر عملاً اس باطل پیغام کو قبول کرلیا ہے اور بہت سے حق پرست، دولت ایمان سے مالا مال انسان بھی چھوٹے خاندان کو ترجیح دینے لگے ہیں اور ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کا مادیت کے قائلین نے جو نعرہ دیا تھا اس پر کاربند ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے مسلم خاندان محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اولاد ایک بہت بڑی نعمت ہے، نہ جانے ان سے کیا کیا فوائد مادی اعتبار سے اس دنیا میں اور روحانی اعتبار سے آخرت میں ملنے والے ہیں، اس پر ہماری نظر نہیں ہے۔ اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ جو کسی کے زیرپرورش رہتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ رزق وروزی میں فراوانی عطا فرماتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے جن کے ہاں جتنے چھوٹے بچے زیادہ ہونگے ان کی مناسبت سے ان کے ماں باپ وغیرہ کے رزق میں اضافہ ہوگا اور اللہ نے ہر پیدا ہونے والے کا رزق اس کے پیدا کرنے سے پہلے ہی مقدر کردیا ہے۔ اس کی تعلیم وتربیت اور اس کے اسباب زندگی، سب کا اللہ سبحانہ نے وعدہ فرما لیا ہے اور اپنی قدرت سے اس کے انتظامات فرما دیئے ہیں۔ اس کا نظارہ اگر دیکھناہو تو وحوش و طیور اور درندوچرند میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جو گو کہ تہذیب وتمدن سے محروم ہیں۔ آخرت کی زندگی میں بچوں سے اتنا بڑا فائدہ ملنے والا ہے کہ اس مادی زندگی میںاس فائدہ کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا، نبی ٔپاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب انسان کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، لیکن تین چیزیں اس کے نامۂ اعمال میں اضافہ کا باعث بنتی رہتی ہیں، ان میں سے ایک نیک اور صالح اولاد بھی ہے، جو اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کرتی رہتی ہے، اور ایمان والی اولاد کو بھی ایمان والے والدین کے اُخروی درجات ومراتب کی وجہ والدین کے اُس رتبہ و مرتبہ تک پہنچادیا جاتاہے جو اگرچہ کہ اعمال میں ان سے کم ہوں (۵۲؍۲۱) یعنی جنت میں ان کو ایک ساتھ جوڑدیا جاتاہے۔ اولاد کی کثرت کو اللہ کے نبی سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے اور نکاح کے لئے ایسی لڑکی کے انتخاب کو بہتر قرار دیا ہے، جو زیادہ محبت کرنے والی ہو اور جس سے زیادہ سے زیادہ اولاد کی پیدائش ممکن ہو۔ ’’تزوجواالودودالولود فانی اباہی بکم الامم یوم القیامہ‘‘۔
اولاد کی کثرت کے مادی فوائدکے تو اب باطل پرست بھی قائل ہونے لگے ہیں، چنانچہ ہندوستان میں باطل مذہب کے پرستاروں کو اس بات کا ڈر اور خوف ہونے لگا ہے کہ کہیں آگے چل کران کی تعداد گھٹ نہ جائے اور کہیںوہ اقلیت کے زمرہ میں نہ آجائیں، اس لئے ان کے مذہب کے نمائندہ ساکشی مہاراج نے کچھ دن قبل غیرمسلم ماں باپ سے کم ازکم چار بچے پیدا کرنے کی خواہش کی تھی اور اب ایک دوسرے مذہبی رہنما سوامی جی ’’شنکرآچاریہ وسودیوآنند سرسوتی‘‘ جو کہ برہمچاری ہیں نے ہندو خاندانوں کو مشورہ دیا ہے کہ لازمی طور پر دس بچے پیدا کئے جائیں۔ ان کو یہ فکر اس لئے لاحق ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ ہندو مذہب میں ان کی ہندو مذہبی روایات کی وجہ داخل نہیں ہوسکتے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس مذہب میں ایسی کوئی جاذبیت بھی نہیں ہے کہ دیگر مذہب والے اگرچہ کہ باطل پر ہوں ان کے مذہب میں شامل ہونے کا ارادہ کرسکیں، بلکہ صورت حال یہ ہے کہ اس مذہب کے بھید بھاؤ، بڑے چھوٹے کے امتیازات، اعلیٰ اور ادنیٰ یعنی پست اقوام کی تقسیم اور پست اقوام کے ساتھ اعلیٰ قوم کے ظلم و ستم اوران کی تحقیر و تذلیل وغیرہ جیسے عوامل کی وجہ ہندو مذہب پر کاربند پست اقوام اب اپنے مذہب سے متنفر ہوکر دیگر مذاہب میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے خطرات بجا ہیں اور انشاء اللہ ضرور ایسا ہوکر رہے گا، کیونکہ نبیٔ اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ’’ہر کچے اور پکے گھر میں اسلام داخل ہوجائے گا‘‘ اور یہ خوش خبری بھی ارشاد فرمائی ہے کہ ’’مجھے ہند سے خوشبو آرہی ہے‘‘۔ آپﷺ کی یہ خوش خبری آپﷺ کی ہند کے بارے میں مسرت وشادمانی کی یہ پیشگی خبر اشارہ دے رہی ہے کہ انشاء اللہ ضرور اسلام ہندوستان کا مقدر بنے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اہل ایمان بھی کثرت اولاد کے اسلامی فلسفہ کو دل و جان سے عزیز بنائیں اور مغربی تہذیب نے مادیت اختیار کرکے فطرت کے قوانین سے انحراف اور مشیت ایزدی کی مخالفت کا جو ماحول تیار کیا ہے، اس کو دوہاتھ سے سلام کردیں۔ کثرتِ اولاد اسلامی نقطۂ نظر سے مادی و روحانی فوائد کی حامل ہے، لہذا ہم مسلمان اس پر یقین رکھتے ہوئے ساری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ’’کثرتِ اولاد رحمت ہے، نہ کہ زحمت‘‘۔