کتاب دوستی ہوئی پرانی

پیارے بچو ! کتاب کا تعلق انسان سے بڑا پرانا ہے۔ اسی تعلق کے اعتراف میں ہر سال 23 اپریل کو کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے بلکہ یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔ کتاب کا عالمی دن منانے کا مقصد لوگوں میں اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔انیس سو پچیانوے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا اجلاس فرانس میں ہوا جس میں اس ادارے نے 23 اپریل کو کتاب کا عالمی دن قرار دیا جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے اسے منانے کا آغاز کیا۔اس وقت فیس بک، ٹوئیٹر اور موبائل فونز جیسی جدید ٹیکنالوجی کے باعث دنیا بھر میں کتب بینی کا رجحان دم توڑ رہا ہے۔

مثال کے طور پر دنیا کی 10 یا 100 بہترین کتابوں میں اردو زبان کی کوئی کتاب شامل نہیں اس کے مقابلے میں دنیا کی سب سے بہترین سمجھی جانے والی 10 کتابوں میں روسی و فرانسیسی ادیبوں کی 6 کتابیں شامل ہیں۔اسی طرح بہت سے ایسے مصنفین جو عوامی پذیرائی حاصل کرلیتے ہیں ان کا کام ادبی حلقے مسترد کر دیتے ہیں جیسے ابن صفی، نسیم حجازی یا دیگر۔اس کے علاوہ معلومات کے جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے مگر آج بھی یہ معاشرے میں 70 فیصد افراد کیلئے معلومات اور حصول علم کا ذریعہ ہے۔مگر کتب بینی کا یہ رجحان ڈائجسٹوں یا اخبارات تک ہی محدود ہے۔ ماضی میں کتب بینی کا رجحان کافی بہتر تھا اور اسی دور میں بہترین ناول بھی سامنے آئے جن پر فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بھی تخلیق کئے گئے۔ حالیہ سروے کے مطابق صرف 27 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں جبکہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعے کا اشتیاق تو ہے مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔ تاہم اہم امر یہ ہے کہ کتاب جہاں انسان کے علم میں اضافہ کرتی ہے وہیں اس کی بہترین دوست اور تنہائی کی رفیق بھی ہے اور آدمی کی روحانی تسکین کا باعث بھی بنتی ہے۔