کانگریس کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے موجود

تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت:سلمان خورشید، کانگریس کا اپنی تاریخ کا اعتراف :بی جے پی قائد مختار عباس نقوی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی سالانہ تقریب میں طالب علم کے
سوال پر سابق مرکزی وزیر کا ریمارک
کانگریس کا اظہار بے تعلقی

علیگڑھ 24 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) اقلیتوں پر تشدد اور فرقہ وارانہ فساداتکے خلاف اپنی حریف بی جے پی کو سیکولر سیاست اور اخلاقی اقدار کا درس دینے والی جماعت کانگریس اُس وقت اُلجھن و پشیمانی سے دوچار ہوگئی جب اس کے ایک سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے دو ٹوک انداز میں کہاکہ کانگریس کے دامن پر بھی مسلمانوں کے خون کے دھبے موجود ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کانگریس دور حکمرانی میں پیش آئے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کے اعتراف کی وجہ سے یہ پارٹی موجودہ دور میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد اور فسادات پر خاموش بیٹھ جائے۔ سلمان خورشید نے اس ضمن میں تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ کانگریس نے آج اپنے ایک سینئر لیڈر سلمان خورشید کے ان ریمارکس سے دوری و بے تعلقی اختیار کی جن میں انھوں نے کہا تھا کہ کانگریس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ کانگریس کے ایک ترجمان پی ایل پونیا نے کہاکہ ’’کانگریس اُن (سلمان خورشید) کے بیان سے اتفاق نہیں کرتی۔ یہ پارٹی کا نہیں بلکہ ان (خورشید) کا شخصی نظریہ ہے۔ اُنھوں نے اتوار کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بی آر امبیڈکر آڈیٹوریم میں منعقدہ سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کانگریس کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں‘‘۔ اس یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے یہ تلخ سوال کرتے ہوئے اُنھیں حاشیہ پر پہونچا دیا تھا کہ اپنے ہاتھوں پر لگے مسلمانوں کے خون کے دھبوں کو کانگریس آیا کس طرح دھوپائے گی۔ تاہم سلمان خورشید نے فوری طور پر صورتحال کو محسوس کرلیا اور دو ٹوک انداز میں جواب دیا تھا کہ یہ ایک سیاسی سوال ہے۔ یقینا ہمارے ہاتھ خون آلود ہیں۔ مَیں بھی کانگریس کا حصہ ہوں، مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ہاتھ خون آلود ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آپ ہم سے یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کیا اگر کوئی آپ پر حملہ کرے تو ہم آپ کو بچانے کے لئے محض اس لئے آگے نہ آئیں (کہ ہمارے ہاتھ خون آلود ہیں)؟؟؟ اس طالب علم نے سوال کیا تھا کہ ’’پہلی ترمیم 1948 ء میں کی گئی۔ جس کے بعد 1950 ء میں صدارتی حکمنامہ جاری ہوا۔ بعدازاں حسن پورہ، ملیانہ، مظفر نگر کے علاوہ ان فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل فہرست ہے جو کانگریس کے دور حکمرانی میں ہوئے تھے۔ کانگریس کے دور حکومت میں ہی بابری مسجد کے دروازے کھولے گئے تھے۔ اس کے اندر مورتیاں بٹھائی گئی تھیں اور پھر بابری مسجد منہدم بھی اُسی وقت کی گئی جب مرکز میں کانگریس برسر اقتدار تھی۔ کانگریس کا دامن مسلمانوں کے خون سے داغدار ہے اور کانگریس کے ہاتھوں پر لگے مسلمانوں کے خون کے دھبوں کو آپ (سلمان خورشید / کانگریس قائدین) کن الفاظ سے دھوپائیں گے؟؟؟ اس پر سلمان خورشید نے پورے اطمینان و مہارت کے ساتھ جواب دیا کہ ’’یہ ایک سیاسی سوال ہے۔ ’’جہاں ہمارے ہاتھ بھی خون آلود ہیں۔ میں بھی کانگریس کا ہی حصہ ہوں۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہمارے دامن پر بھی خون کے دھبے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ ہم سے یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اگر آپ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو آپ کو بچانے کے لئے ہمیں محض اس وجہ سے آگے نہیں آنا چاہئے‘‘۔ سلمان خورشید نے اس طالب علم کے سوال پر سکون اور سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے مزید کہاکہ ’’مَیں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے ہاتھ پر لگے خون کے دھبے دکھانے تیار ہیں تاکہ آپ بھی اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ اپنے ہاتھ خون آلود نہ کریں۔ (کیونکہ) اگر آپ ان پر (تنقیدی) حملہ کرتے ہیں تو آپ بھی ان میں سے ایک ہوں گے جو آپ کے ہاتھ پر دھبے لائیں گے‘‘۔ سلمان خورشید نے کہاکہ ’’ہمارے ماضی سے کچھ سیکھئے۔ ہماری تاریخ سے سیکھئے لیکن خود اپنے آپ کے لئے کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ کیجئے جس میں 10 سال بعد اگر آپ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی واپس آئیں تو آپ کو اس قسم کے سوالات کرنے والا کوئی نہ ملے‘‘۔ سلمان خورشید نے بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ اپنے بیان پر بدستور قائم ہیں۔ اگرچہ میڈیا نے اس کو سنسنی خیز بنادیا ہے۔سینئر بی جے پی قائد مختار عباس نقوی نے کہا کہ کانگریس ہمیشہ سیکولرازم کا نقاب ڈالے ہوئے عملی اعتدال سے فرقہ پرستی پر عمل پیرا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ عوام میں پھوٹ پیدا کرتی ہے ۔ کشیدگی میں اضافہ کرتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کرتی ہے جس کے نتیجہ میں اسے ووٹ حاصل ہوتے ہیں ۔ یہی کانگریس کی تاریخ ہے جس کا سینئر کانگریس قائد سلمان خورشید نے آج اعتراف کیا ہے ۔