کانگریس کی پرجا چیتنیہ یاترا سے خاموش انقلاب متوقع

ٹی آر ایس حکومت ہر محاذ ناکام ‘ عوام کو دھوکہ دہی ‘ اتم کمار ریڈی کا خطاب

حیدرآباد ۔ 25 ؍ فبروری ( این ایس ایس ) تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر کیپٹن این اتم کمار ریڈی نے آج کہا کہ ان کی پارٹی کی طرف سے پیر 26 فبروری کو شروع کی جانے والی پرجا چیتنیہ یاترا سے ریاست میں ایک خاموش انقلاب برپا ہوگا ۔ کانگریس کی طلباء تنظیم این ایس یو آئی اور نوجوانوں کی تنظیم یوتھ کانگریس کے قدیم قائدین کے اجلاس سے اتوار کو اندرا بھون میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کاکہا کہ مجوزہ بس یاترا کانگریس کی طرف سے محض طاقت کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ ٹی آر ایس حکومت کے خلاف عدم اطمینان‘ ناراضگی و مایوسی کے اظہار کا ایک موثر ذریعہ ہے کیونکہ ٹی آر ایس حکومت تمام محاذوں پر ناکام ہوچکی ہے ۔ اتم کمار ریڈی نے کہا کہ ٹی آر ایس حکمرانی میں دھوکہ بازی اور اس سے عوام کو ہونے والی مشکلات سے عوام کو واقف کروانا کانگریس کے ہر ورکر کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہئے کہ وہ چیف منسٹر کے چندر شیکھرراو کی شعبدہ بازی سے چوکس و خبردار رہیں جو اپنے غلط دعووں اور جھوٹے وعدوں سے عوام کو مسلسل دھوکے دے رہے ہیں ۔ اتم کمار ریڈی نے کہاکہ کانگریس پارٹی کو 2004 اور 2009 کے انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن 2019 میں محض حکمران جماعت کو تیسری مرتبہ اقتدار نہ دینے رائے دہندوں کے رجحان کے درمیان عوام نے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اور تلنگانہ کے کے چیف منسٹر کے چندر شیکھرراو کے بلند بانگ وعدوں پر بھروسہ کرلیا تھا ۔ اتم کمارریڈی نے کہا کہ اقتدار پر فائز ہونے کے ایک سال بعد کے سی آر نے ریاست سے کانگریس کا صفایا کرنے کے لئے سرپنچ سے رکن پارلیمنٹ کی سطح تک ہر کسی کو لالچ اور دھمکیوں کے ذریعہ انحراف کروانے کی کوشش کی ۔ چند ارکان اسمبلی اور اور ارکان قانون ساز کونسل کے انحراف کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ آئندہ انتخابات سے قبل تلنگانہ سے کانگریس کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ بالکل اس طرح وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے صدر امیت شاہ کے دورہ کے بعد بی جے پی یہ دعوے کرنے لگی کہ تلنگانہ میں برسراقتدار آئیگی ۔ لیکن کانگریس قائدین نے لالچ اور دھمکیوں کا پوری جرتمندی کے ساتھ مقابلہ کیا ہر سطح پر اپنی پارٹی کو مستحکم بنایا جس کا نتیجہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کانگریس اب پوری طرح تیار ہوچکی ہے ۔ 2015 اور 2018 کی کانگریس کے درمیان کافی فرق ہے ۔