کانگریس کی صدارت

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
کانگریس کی صدارت
کانگریس کو ان دنوں جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا ہے۔ وہ پارٹی کی مقبولیت میں دن بہ دن کمی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کیلئے صرف زبانی جمع خرچ کے سواء کچھ نہیں کررہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں ناکامی کے بعد مختلف ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی کمزور مظاہرہ کے بعد اب دہلی کے آنے والے اسمبلی انتخابات کیلئے بھی پارٹی نے کوئی خاص تیاری نہیں کی ہے۔ دہلی میں اس وقت دو پارٹیوں کے درمیان راست مقابلہ دیکھا جارہا ہے۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان اس مقابلہ کو کانٹے کی ٹکر بھی کہا جارہا ہے۔ کانگریس نے دہلی پر مسلسل 3 میعاد تک حکومت کی تھی مگر گذشتہ انتخابات میں اروند کجریوال نے اس کو اقتدار سے بیدخل کردیا تھا۔ یہاں سے کانگریس کا سیاسی زوال پے در پے جاری ہے۔ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کے دو اہم قائدین کو اپنی صف میں شامل کرکے دہلی انتخابات کے نتائج اپنے حق میں بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ قومی پارٹی کا موقف رکھنے کے باوجود کانگریس کو آج علاقائی پارٹی کے برابر بھی طاقتور متصور نہیں کیا جارہا ہے تو اس کی وجہ پارٹی کی ماضی میں کی گئی غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کو اگرچیکہ پارٹی کی بدترین ہزیمت کا غم ہے لیکن اس غم سے انہیں نکالنے والی تیسری طاقت ہنوز سیاسی پس منظر میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ کانگریس قائدین کی بڑی تعداد نے ہر وقت پرینکا گاندھی کو کانگریس کا اہم مہم جو اور لیڈر بنانے کی پرزور وکالت کی ہے۔ ان کی موجودگی سے پارٹی کو نئی طاقت مل سکتی ہے جیسا کہ انہوں نے ازخود کہا تھا کہ کانگریس عوام کے کی نبض کو سمجھنے سے محروم ہوچکی ہے۔ کانگریس کو داخلی طور پر مضبوط بنانے کیلئے نائب صدر راہول گاندھی کو پارٹی کے اندر کی جمہوریت کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ پرینکا گاندھی نے پارٹی کے اصل مسئلہ کی جانب توجہ دلائی کہ پارٹی قائدین نے عوام الناس کے توقعات کو نہیں سمجھا ہے اس لئے پارٹی عوام سے دور ہوتی گئی ہے۔ اب پارٹی کے ماضی کے وقار اور طاقت کو بحال کرنے کیلئے ضروری ہیکہ اسے وہی کرنا ہوگا جو عوام اس سے توقع کرتے ہیں۔ اگر عوام کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکے تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کانگریس کے پاس اب وقت ہی وقت ہے۔ وہ اپنی غلطیوں کو سدھار کر مودی حکومت کی خامیوں سے عوام الناس کو واقف کرانے کی مہم شرع کرنی ہوگی۔ مودی حکومت کی کمزوریوں کو ہر کانگریس لیڈر اپنے متعلقہ حلقوں میں واضح کرتا ہے تو عوام الناس کی بڑی تعداد کو بی جے پی حکومت کی خرابیوں سے واقف کرانے میں مدد ملے گی مگر افسوس اس بات کا ہیکہ کانگریس قائدین نے متواتر ناکامیوں کے باوجود بنیادی کاموں کو انجام دینے کی سنجیدہ سوچ پیدا نہیں کی ہے۔ کانگریس کے سامنے مودی حکومت کی ابتدائی غلطیوں کی ایک بڑی فہرست ہے۔ اگر اس فہرست کے مطابق عوام کے اندر مودی حکومت کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں تو شاید دہلی کے رائے دہندوں کے فیصلہ کا رخ کانگریس کی جانب ہوجائے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کے عہدہ کیلئے ناممد ہونے سے بہت پہلے سے ہی فیس بک اور دیگر الیکٹرانک و انٹرنیٹ سوشیل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت مضبوط کرلی تھی۔ کانگریس کو بھی فیس بک اور دیگر ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے مودی حکومت کی خرابیوں اور اس کی فرقہ پرستانہ پالیسیوں سے عوام کو واقف کرواتے ہوئے اس کے سنگین نتائج سے بھی باخبر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کانگریس کے دور میں رشوت ستانی ہی پارٹی کی شکست کی اصل وجہ بتائی جارہی ہے تو دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیں تو اس میں کئی ناکام پالیسیوں کا جال نظر آئے گا۔ عوام کے اعتماد سے محروم ہونے کی حقیقت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کانگریس اس وقت اس تکلیف سے گذر رہی ہے۔ اس کے باوجود اس نے سبق نہیں سیکھا ہے۔ پارٹی قائدین کی شخصی صلاحیتوں پر تنقید کرنے والوں نے یہ واضح کہہ دیا ہیکہ اب کانگریس کے احیاء کیلئے ہونے والی کوششوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کانگریس کی ذمہ داری نوجوان قیادت کے حوالے کرنے کی تیاریوں کے درمیان اگر اپریل میں نائب صدر کانگریس راہول گاندھی صدر پارٹی کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ سوال یہ ہیکہ آیا وہ پارٹی کے علاقائی قائدین کو کانگریس کے پرزور حامی بنائے رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔