ویسے میں کچھ بھی نہیں اِک ذرۂ ناچیز تھا
ہے عنایت آپ کی خدمت کے قابل ہوگیا
کانگریس کی شاندار پیشرفت
ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے آنے والے لوک سبھا انتخابات میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں ۔ مدھیہ پردیش، راجستھان ، چھتیس گڑھ ، تلنگانہ اور میزورم میں رائے دہندوں کا فیصلہ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کے لئے سبق آموز ہے۔ اب بی جے پی لوک سبھا میں یہ اعتراف کرتے دکھائی دے رہی ہے کہ ان کی پارٹی کیلئے یہ نتائج حیرت انگیز، صدمہ خیز ہیں۔2014 میں نریندر مودی نے جس ڈیولپمنٹ کے مسئلہ کو لے کر انتخابات لڑے تھے اس ڈیولپمنٹ کو اسمبلی انتخابات میں نظر انداز کردیا گیا اس کی جگہ رام مندر، مجسموں کی سیاست اورتاریخی شہروں کے ناموں کی تبدیلی پر توجہ دی گئی۔ بی جے پی کو رائے دہندوں کی اکثریت نے مسترد کیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اگرچیکہ اس کی 230 رکنی اسمبلی میں کانگریس سے کانٹے کی ٹکر کا سامنا تھا مگر وہ حکومت سازی کے دعویٰ سے محروم ہوگئی ہے۔ بی جے پی کو مدھیہ پردیش میں(108) ، کانگریس کو (115 ) ، بی ایس پی کو 6 اور دیگر کو 5 پر کامیابی مل رہی ہے جبکہ راجستھان میں کانگریس نے 200 رکنی ایوان کے 199پر ہوئے انتخابات میں پارٹی نے شاندار قطعی اکثریت کے ساتھ 100 نشستیں حاصل کی ہیںجبکہ بی جے پی کو بدترین ہار کے ساتھ 74 نشستیں مل رہی ہیں، اسے 88 نشستو ں کا نقصان ہوا ہے۔ بی ایس پی کو یہاں بھی 5 نشستیں مل رہی ہیں تو وہ دونوں ریاستوں میں کانگریس کا ساتھ دیتی ہے تو قومی سطح پر ایک عظیم اتحاد کی راہ ہموار ہوگی۔ چھتیس گڑھ کے نتائج بھیزعفرانی پارٹی کیلئے شدید دھکہ ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی اور عوام نے یہاں مخالف حکمرانی لہر کے تحت ووٹ دیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے رمن سنگھ کی حکومت کی ستائش کی جارہی تھی لیکن اس خوش فہمی نے بی جے پی کو بہت پیچھے ڈھکیل دیا، یہاں بی جے پی کو صرف(10) نشستیں ملی ہیں جبکہ کانگریس نے قطعی اکثریت کے ساتھ شاندار 70 نشستوں پر اپنی برتری حاصل کرلی۔ تلنگانہ کے نتائج بھی حیران کن ثابت ہوئے۔ کانگریس ۔ تلگودیشم اتحاد کے باوجود کانگریس کو یہاں کوئی پیش رفت کرنے کا موقع نہیں ملا، اسے پہلے سے کم ووٹ ملے ہیں۔ ٹی آر ایس کی کامیابی کو اس پارٹی کی پالیسیوں اور عوام میں مقبول اسکیمات کا مرہون منت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ٹی آر ایس نے اسمبلی انتخابات سے قبل اپنی جیت کا نشانہ 100 رکھا تھا اب اسے 87 پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کانگریس کو یہاں 19 نشستوں کے ساتھ 20کا نقصان ہوا ہے۔ میزورم میں کانگریس کی حکومت کے دوران ہوئے انتخابات میں یہاں بھی 40 رکنی ایوان کے لئے عوام نے مخالف حکمرانی لہر کے تحت ووٹ ڈالا تو کانگریس کو بدترین شکست ہوئی۔ میزورم میں ایم این ایف کو26، کانگریس کو 8 نشستیں مل رہی ہیں، یہ نتائج زعفرانی پارٹی بی جے پی کے اعلانات پر شدید وار ہے۔ عوام نے مودی کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور معاشی ابتری کے رونما ہونے والے واقعات نے عوام کے اندر حکومت کے خلاف ناراضگی پیدا کی تھی جس کے نتیجہ میں شمالی ہند کی ہندی پٹی والی ریاستوں میں اسے شدید دھکہ پہنچا ہے۔ سیمی فائنل سمجھے جانے والے ان نتائج نے لوک سبھا انتخابات 2019 کی تصویر واضح کردی ہے۔ اگر عوام میں تبدیلی کا رحجان پیدا ہوا ہے، وہ مذہبی جذبات، نفرت کی سیاست اور ہجومی تشدد کے واقعات سے بیزار ہوچکے ہیں، انہیں معاشی ترقی، سماجی بھلائی اور امن و امان کی فکر لاحق ہے تو وہ بلاشبہ ہندوستان میں نئی تبدیلی کو یقینی بناکر مرکز میں سیکولر حکومت کو لانے کے لئے ووٹ دیں گے۔ کانگریس کے حق میں یہ ووٹ بلاشبہ عوام کی فتح ہے۔ اسے ایک ایسے وقت میں کامیابی ملی ہے جب ملک کے دستور، جمہوریت اور سیکولر کردار کو نقصان پہنچانے کی ساری تیاریاں کرلی گئی تھیں۔ ملک کا سیکولر رائے دہندہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان کو ایک نفرت استھان میں تبدیل کرکے یہاں کے عوام میں خون خرابے کی فضاء کو فروغ دیا جائے۔ بی جے پی نے اب تک نفرت کی سیاست کو ہی اپنایا ہے تو اسے آنے والے انتخابات میں بھی ان اسمبلی نتائج کی طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے۔ ملک کے بڑے دستوری اداروں کو غلط یا بیجا استعمال کرنا عوام کے لئے ناپسندیدہ عمل تھا۔ آر بی آئی، سی وی سی، سی بی آئی اور جمہوری اداروں کے اختیارات سلب کرکے اپنی بالادستی دکھانے والی مودی حکومت کو بالآخر ہندی پٹی کی اہم ریاستوں نے سبق سکھایا ہے تو اس کا تسلسل 2019 کے عام انتخابات میں بھی برقرار رہے گا۔عوام نے مودی حکومت کے خلاف اپنی برہمی ظاہر کردی ہے اور یہ برہمی حکومت کی ناکام پالیسیوں کا جواب ثابت ہوئی۔ بہرحال کانگری کی 3ریاستوں میں ہوئی شاندار پیش رفت ایک مثبت تبدیلی ہے۔