کانگریس کی ساکھ

موت آگئی نہ ہو مرے ذوق اُمید کو
محرومیوں میں کیف سا پانے لگا ہوں میں
کانگریس کی ساکھ
ہندوستان میں ایسے کتنے باشعور لوگ ہیں جو اس بات سے پہلے سے آگاہ ہیں کہ انکے پسندیدہ قائدین یا پسندیدہ سیاسی پارٹیاں ان کے حق میں کونسے بہتر کام انجام دیئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے اقتدار کے حصول کے بعد ملک کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کس حد تک تیزی دکھلائی ہے؟ یہ دھیرے دھیرے عوام پر منکشف ہورہا ہے۔ اب باشعور لوگوں کا ٹولہ اپنے چہیتے لیڈروں کے چہروں کو پہچاننے لگا ہے جو انتخابات کے دوران مختلف جلسوں میں پتلی تماشا کا کردار پیش کررہے تھے۔ عوام نے کانگریس کی دس سال حکمرانی سے بیزارگی ظاہر کرکے اسے رد کردیا تھا۔ کانگریسیوں پر اب عوام کے سب دروازے بند ہیں، صرف ایک دروازہ کھلا ہے، وہ ہے ’’پرائشچت‘‘ کا۔ کانگریس والوں کو اپنا محاسبہ کرکے ’’عوام سے پرائشچت‘‘ کرلینی چاہئے۔ اگر کانگریس اس پچھتاوے و ندامت کے دروازے سے گزرتی ہے تو اسے ملک کی دیگر ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات کی تیاریا ںہورہی ہیں، اپنے اقتدار کی کرسی کو مضبوط بنانے کا موقع ملے گا۔ دہلی میں حکومت سازی کے عمل کے لئے بی جے پی نے مرکزی اقتدار کے تمام اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کانگریس کے ارکان کو خریدنے کی کوشش کررہی ہے، تو یہ قومی سطح کی تاریخی پارٹی کے لئے سب سے بدترین ہزیمت اور معیوب کن بات ہوگی۔ کانگریس کے قائدین اقتدار کے لئے خود کو ’’برائے فروخت‘‘ کی شئے بنالیتے ہیں تو یہ بھی ایک بار کانگریس کی سیاسی ناکامیوں کے تسلسل کا المیہ ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں شکست سے غم زدہ بلکہ تقریباً ہمت کھوکر مایوسی کا شکار پارٹی میں اپنے بچے کھچے ارکان پر گرفت رکھنے میں بھی ہمت دکھانے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر آنے والے دنوں میں کانگریس کا صفایا کرنے اقتدار پر فائز جماعت اور اس کے قائدین کا عزم پورا ہوجائے گا۔ نریندر مودی نے بی جے پی کے حق میں بطور وزارتِ عظمیٰ امیدوار مہم چلاتے ہوئے عوام سے کہا تھا کہ اس ماں بیٹے کی سرکار کو برخاست کرواور ہم کانگریس کا ہندوستان کی سیاست سے صفایا کردیں گے۔ اس خیال اور موجودہ کانگریس کے حالات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ کانگریس کا صفایا کرنے کے لئے حکمراں پارٹی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ دہلی میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی پر الزام ہے کہ اس نے کانگریس کے 6 ارکان اسمبلی کو فی کس 20 کروڑ روپئے کی پیشکش کی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال نے جو دہلی کے سابق چیف منسٹر ہیں، بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ دہلی میں اقتدار کے حصول کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ جمہوریت کا قتل کرنا اس کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمراں پارٹی جب کچھ کرسکتی ہے تو اپوزیشن کو اس کا شکار بننے کے لئے خاموشی سے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے یا اپوزیشن خاص کر کانگریس کو اپنے کیڈر و لیڈر کو تھام کر رکھنے کے لئے کچھ ہائی کمان والی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ قومی سطح پر ایک ایسی پارٹی کے ارکان کو خریدنے کی بات کی جارہی ہے، جس کا ماضی شاندار رہا ہے، جس کے اقدار اور قائدین کے کردار کو عمدہ سیاسی اوصاف کا نام دیا جاتا تھا۔ کانگریس اپنی غلطیوں، خامیوں اور خرابیوں کے باعث اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اس پر کوئی بھی پتھر پھینکے، وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ بے حِسی اس پر ایسی طاری ہوچکی ہے کہ وہ اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کی فکر کرنے کی بجائے اپنی موجودہ طاقت کو بچانے کی کوشش بھی نہیں کررہی ہے۔ بی جے پی نے عام انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کے مرحلہ اول اور مرحلہ دوم کے دوران انجام دیئے گئے عوامی فلاحی کاموں کی اہمیت کو کم کرنے اور خرابیوں کو اُچھالنے کی مہم میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے بعد بھی کانگریس نے سبق نہیں سیکھا اور حکمراں پارٹی کی جارحانہ سیاسی مہم کا جواب تیار کرنے کی فکر صحیح شروع نہیں کی۔ اگر دہلی میں حکومت بنانے کے لئے بی جے پی نے کامیابی حاصل کرلی تو یوں سمجھئے کہ وہ دولت اور طاقت کے بل پر کسی بھی پارٹی کو زیر کرتے چلے جائے گی۔ کسی بھی پارٹی سے وابستہ سیاستدانوں کو اقتدار کا لالچ دے کر رجھایا جانے کا چلن عام ہے، مگر اس چال کے جال میں وہی پھنستے ہیں جو سیاسی وابستگی اور دیانتداری کے جذبہ سے عاری ہوتے ہیں۔ کانگریس قائدین کا ماضی اپنی پارٹی سے وابستگی کے عزم میں کھرا ثابت ہوتا تھا۔ اس مرتبہ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس قائدین اپنی پارٹی کی بقاء کے لئے اس کی اجتماعی طاقت بننے میں یا اسے کمزور کرنے اپنی ہی صف میں دراڑ پیدا کرنے والے حالات کا ساتھ دیتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی عنقریب اسمبلی انتخابات کی تیاری ہورہی ہے تو اس ریاست میں پارٹی کے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں قومی سطح پر حکمراں بی جے پی کے عزائم کو متزلزل کرنے کا موجب ہوں گی، ورنہ کانگریس کو مہاراشٹرا کے اقتدار سے محروم کردیا گیا تو پھر ملک بھر میں یہ تجربہ زور پکڑے گا۔