دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
کانگریس کو حلیفوں سے مشکلات
انتخابات کے موسم میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی اپنی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں ہندوستان میں عام بات ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں جو جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اس بار وہ ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کرینگی ۔ اسی طرح گذشتہ انتخابات میں جو جماعتیں ایک جماعت کی حامی رہی ہیں وہ اب دوسری کی شدت کے ساتھ مخالفت کرینگی ۔ یہ ہندوستان میں انتخابی عمل کا حصہ بن گیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں ویسے تو اخلاق و اقدار کا فقدان کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن سیاسی صف بندیوں کے معاملہ میں تو یہ سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتا ہے جب یہ جماعتیں محض حصول اقتدار کی خاطر اپنے دشمنوں کو گلے لگانے سے نہیں چوکتیں اور اپنے دوستوں کو دشمنوں کی فہرست میں لا کھڑا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ جس طرح کہا جاتاہے کہ سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست یا مستقل دشمن نہیں ہوتا اسی پر عمل کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں ہر مرتبہ انتخابات میں اپنے حلیف بدلتی جاتی ہیں۔ اب جبکہ 2014 شروع ہوچکا ہے اور انتخابات کیلئے بالکل کم وقت رہ گیا ہے ‘ تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی الگ الگ راہیں بنانے کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ راغب کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ ووٹوں کی شکل میں نشستوں کی تعداد بھی بڑھتی جائے تاکہ آئندہ حکومت سازی کے عمل میں انہیں دوسروں پر سبقت لیجانے اور اپنی منوانے کا موقع مل سکے ۔ یہ سب چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح انہیں اقتدار مل جائے یا پھر اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری انہیں کے حصے میں آئے ۔ اس کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ اب انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے کانگریس کیلئے اپنی حلیف جماعتوں کو اپنے ساتھ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ کانگریس پارٹی بظاہر ایسی کسی پریشانی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے لیکن اس کیلئے جہاں نئے حلیف بنانے مشکل ہوتے جا رہے ہیں وہیں پرانے حلیفوں کو اپنے ساتھ برقرار رکھنا بھی اس کیلئے آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ اب حالیہ تبدیلیوں میں مہاراشٹرا میں کانگریس کے ساتھ اقتدار میں شریک این سی پی نے بھی اپنے عزائم دکھانے شروع کردئے ہیں۔
یہ افواہیں بھی ہیں کہ این سی پی سربراہ شرد پوار بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی سے خفیہ ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ حالانکہ این سی پی نے ابھی ان افواہوں کی تردید کی ہے اور خود بی جے پی کی جانب سے بھی اس کی تردید کی جا رہی ہے لیکن یہ افواہ بھی سیاسی چال ہوسکتی ہے تاکہ کانگریس پر دباو ؛ال کر زیاد ہ سے زیادہ حصہ داری حاصل کی جاسکے ۔ جس وقت شرد پوار کی مودی سے ملاقات کی افواہیں چل رہی تھیں اسی وقت کے آس پاس این سی پی لیڈر پرفل پٹیل نے نریندر مودی کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مودی کو گجرات فسادات میں عدالت کی جانب سے کلین چٹ دیدی گئی ہے اس لئے اب بار بار اس بات کو دہرانا درست نہیں ہے ۔ یہ سارا ملک جانتا ہے کہ مودی کو کس انداز سے کلین چٹ دلائی گئی ۔ یقینی طور پر عدالت نے کلین چٹ دی ہے لیکن عدالت کے سامنے حقائق لانے سے جو گریز کیا گیا اس کی ذمہ داری گجرات کی حکومت اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر ہی لاگو ہوتی ہے ۔ ان ہی ایجنسیوں نے مودی کو بچانے کا کام کیا ہے ۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے تاہم این سی پی نے اپنے عزائم کو واضح کردیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی ور کانگریس کا اتحاد جس طرح سے اقتدار پر برقرار ہے اور لوک سبھا کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتا رہا ہے وہ 2014 کے انتخابات میں بھی اہمیت کا حامل ہے اور بی جے پی کی کوشش یہی ہوگی کہ کسی طرح سے یہ اتحاد ٹوٹ جائے اور اسے فائدہ حاصل ہوجائے تاکہ مودی کو وزارت عظمی پر فائز کرنے کا اس کا خواب پورا ہوسکے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔
کانگریس کیلئے ایسے حالات حالانکہ نئے نہیں ہیں اور وہ ایک سے زائد مرتبہ ایک سے زائد حلیفوں سے اس طرح کے حالات کا شکار رہی ہے اور اس نے خود بھی دوسری حلیفوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار بھی کیا تھا تاہم 2014 کے انتخابات اس ملک کی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں جب فسطائی اور فرقہ پرست طاقتیں حصول اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہیں ۔ ایسے میں ان طاقتوں کو روکنے کیلئے کانگریس کو یقینی طور پر اپنی حلیف جماعتوں کا ساتھ درکار ہوگا اور اس کیلئے جہاں حلیف جماعتوں کی ملک کے مستقبل کو ذہن میں رکھنا چاہئے وہیں کانگریس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد برقرار رکھنے کی اپنی جانب سے ہر ممکنہ کوشش کرے ۔ یقینی طور پر بی جے پی کی جانب سے حلیف جماعتوںمیں دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں کی جائیں گی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پارٹی اس طرح کی کوششوں سے نمٹنے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔