کانگریس چیف منسٹروں کی ذمہ داریاں

جب بھی آنے میں دیر کرتے ہو
خود میں اپنے سے روٹھ جاتا ہوں
کانگریس چیف منسٹروں کی ذمہ داریاں
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور اب ان ریاستوں میں نئے وزرائے اعلی اپنے عہدوں کا حلف لینے شروع ہوگئے ہیں۔ تین ریاستوں چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس کی حکومتیں بن رہی ہیں اور ان کے منجملہ دو ریاستوں مدھیہ پردیش اور راجستھان کیلئے چیف منسٹروں کا انتخاب کرلیا گیا ہے ۔ دونوں ریاستوں میں سینئر قائدین اشوک گہلوٹ اور کمل ناتھ کو یہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ کمل ناتھ پہلی مرتبہ چیف منسٹر کی ذمہ داری سنبھالیں گے جبکہ اشوک گہلوٹ کیلئے یہ تیسری مرتبہ ہوگا کہ وہ ریاست کے چیف منسٹر بنیں گے ۔ چھتیس گڑھ میں ابھی چیف منسٹر کے نام کو قطعیت نہیں دی گئی ہے ۔ تاہم ان ریاستوں میں کانگریس کے چیف منسٹرس ہونگے اور اب ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی ۔ ان چیف منسٹروں کو اب کرسی کی مراعات کی بجائے عوام کی خدمات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ وہ وقت اب نہیں رہ گیا ہے جب کانگریس کے نام پر یا پھر مقبول عام اعلانات کی بنیاد پر عوام پر حکومت کی جاسکتی ہو یا پھر عوام کو زیادہ عرصہ بیوقوف بنایا جاسکتا ہو ۔ اب عوام میں شعور بیدار ہوچکا ہے ۔ سماج کا ہر طبقہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے لگا ہے ۔ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ جب حکومتیں عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں تو وہ کام بھی عوام کی توقعات کے مطابق کریں۔ ایک گھسے پٹے فارمولے کے تحت محض رسمی کارروائیوں کی طرز پر حکومت چلانے کے طریقہ کار کو عوام نے اب مسترد کردیا ہے ۔ اب اس طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے کوئی بھی حکومت عوام کی تائید حاصل نہیں کرسکتے ۔ اس صورتحال میں کانگریس کے جو سینئر قائدین وزارت اعلی کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں انہیں سابقہ روایات سے انحراف کرنا ہوگا ۔ عوام کی توقعات کے مطابق حکومت کے منصوبے تیار کرنے ہونگے ۔ ہر کام میں صرف سیاسی فائدہ سوچنے سے عوام کی تائید کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا ۔ کارکردگی کی بنیاد پر عوام اپنی تائید و حمایت کے تعلق سے فیصلے کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں ۔
مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں عوام نے تین معیادوں سے چل رہی حکومتوں کو مسترد کردیا ہے ۔ ان دونوں ریاستوں میں چیف منسٹروں کو بہترین منتظم کہا جاتا تھا اور یہ دعوے بھی کئے جاتے تھے کہ عوام کی نبض کو سمجھتے ہیں اور حالات پر بہترین گرفت رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ تاہم جب کچھ فیصلے اور اقدامات عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام ہوگئے تو عوام نے انہیں بھی اقتدار سے بیدخل کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ چھتیس گڑھ میں خاص طور پر بی جے پی کی حالت بہت ابتر ہوئی ہے ۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پھر بھی پارٹی قدرے بہتر رہی ہے ۔ اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کانگریس کے چیف منسٹروں پر اب نہ صرف ریاست کے عوام کی توقعات پوری کرنے کی ذمہ داری عائد ہوئی ہے بلکہ انہیں پارٹی کی ساکھ کو بچانے اور اس کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کیلئے بھی جدوجہد کرنی ہوگی ۔ انہیں ایک بار پھر ان ریاستوں میں کانگریس کو استحکام بخشنا ہوگا اور ان کا اب اولین امتحان 2019 کے لو ک سبھا انتخابات ہونگے ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کی جو اہمیت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ ان انتخابات کے ذریعہ ملک کے آئندہ پانچ سال کی سیاسی راہ کا فیصلہ ہوگا اور ان میں اگر کانگریس کو بہتر عوامی تائید ملتی ہے تو پھر ملک کے حالات میں تبدیلی آسکتی ہے ۔
جہاں ان ریاستوں کے عوام کی توقعات کو پورا کرنا ان چیف منسٹروں کی ذمہ داری ہوگی وہیں ملک کے سیاسی مستقبل کے تعین میں بھی ان کی کارکردگی کا اہم حصہ ہوگا ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے پر توجہ کرنی ہوگی ۔ سماج کے ہر طبقہ سے انصاف ہونا چاہئے ۔ ان کے حقوق پامال نہیں ہونے چاہئیں۔ پسماندہ طبقات ہوں یا اعلی ذات کے افراد ہوں یا پھر ملک کی اقلیتیں ہوں سبھی کو ایک نظر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان ریاستوں میں بہتر حکمرانی اور تمام طبقات سے انصاف کرتے ہوئے ملک کی دوسری ریاستوں کیلئے مثال پیش کرنی ہوگی ۔ ان تینوں ریاستوں میں جب ہر طبقہ سے انصاف ہوگا تو ملک کی دوسری ریاستوں کے عوام بھی اس کے ساتھ آسکتے ہیں۔