کانگریس میں ریونت ریڈی کی شمولیت

کانگریس کو تلنگانہ میں ایک انجانے خوف کا شکار دیکھا جارہا تھا اس لیے وہ اپنے اطراف دن بہ دن سیاسی حصار کو مضبوط بنانے کی فراق میں نظر آرہی ہے ۔ قومی سطح پر ایک مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں ناکام کانگریس نے ریاستی سطح پر بھی کم و بیش یہی رول ادا کیا ہے ۔ اب اس نے تلگو دیشم سے منحرف ہونے والے ریونت ریڈی کو شامل کر کے تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کے خلاف ایک مضبوط سیاسی ٹکر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ریونت ریڈی نے نئی دہلی میں نائب صدر کانگریس راہول گاندھی کی موجودگی میں کانگریس میں شمولیت کے بعد تلنگانہ ٹی آر ایس کے خلاف اپنے کانگریسی ہوجانے کا ثبوت دینے کی خاطر پہلے ہی دن شعلہ بیانی سے کام لے کر چیف منسٹر تلنگانہ اور ان کی پارٹی کو نشانہ بنایا ۔ یہ کام وہ تلنگانہ تلگو دیشم میں رہ کر بھی کررہے تھے یا کرسکتے تھے ۔ انہوں نے حکومت کے وعدوں اور ناکامیوں کی فہرست میں سے چند سطور لے کر میڈیا کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ تلنگانہ تحریک میں حصہ لینے والوں اور اپنی جانوں کو قربان کرنے والوں کے ساتھ حکمران ٹی آر ایس پارٹی نے انصاف نہیں کیا ہے ۔ 1969 سے تلنگانہ تحریک میں تقریبا 1500 افراد نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے مگر ان کے خاندانوں کے تعلق سے کے سی آر کی اظہار لاتعلقی یا اظہار بے قدری نے ہی اپوزیشن قائدین کو اہم انتخابی موضوع فراہم کردیا ہے ۔ کانگریس کے ایک اخلاقی ترجمان یا حکومت کے بدترین نقاد بن کر ریونت ریڈی آنے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کس حد تک فائدہ پہونچائیں گے ۔ یہ وقت ہی بتائے گا ۔ مگر ان کی شمولیت سے کانگریس کے سینئیر قائدین کے امکانات کو دھکہ پہونچ سکتا ہے ۔ کانگریس کی سیاست میں بنیادی کشمکش عہدے ہوتے ہیں یعنی پارٹی کے سینئیر قائدین کا ٹکراؤ بڑھتا ہے تو پھر کانگریس کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہوگا ۔ کانگریس کے ایک سینئیر لیڈر کے جانا ریڈی برسوں سے ایسے خوابوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ان کی طرح دیگر قائدین کو پارٹی اور حکومت میں اپنا مقام بنانے کی آرزو ہے ۔ اب ان کے سامنے ریونت ریڈی کے ساتھ پارٹی ہائی کمان نے کیا وعدے اور معاہدے کئے ہیں یہ وقت گذرنے کے ساتھ ظاہر ہوں گے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ ریونت ریڈی کی کانگریس میں شمولیت سے مخالف ٹی آر ایس کوششوں میں جان آجائے گی ۔ اس کا واضح ثبوت ریونت ریڈی کے حلقہ اسمبلی کوڑنگل میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ہی ملے گا ۔ اس حلقہ سے ٹی آر ایس امیدوار گروناتھ ریڈی ہی ریونت ریڈی کا مقابلہ کریں گے ۔ ٹی آر ایس نے انہیں ہی ریونت ریڈی کے خلاف اپنا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ سخت آزمائش والا مقابلہ ہوگا ۔ ٹی آر ایس نے 2014 میں تلنگانہ کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی بھی ضمنی انتخاب میں شکست نہیں کھائی ہے ۔ 2014 اور 2015 میں میدک اور ورنگل لوک سبھا حلقوں کے لیے ضمنی انتخابات میں بھی اسے ہی کامیابی ملی تھی ۔ فروری 2016 میں بھی اس نے نارائن کھیڑ اسمبلی حلقہ سے کانگریس سے یہ نشست چھین لی تھی ۔ اگر کوڑنگل ضمنی چناؤ میں ٹی آر ایس نے کامیابی حاصل کی تو عوام کو ایک مضبوط پیام ملے گا کہ وہ تلنگانہ کے کسی بھی حصہ سے کامیابی حاصل کرسکتی ہے ۔ تلنگانہ میں تازہ تبدیلی سے ایک بہتری یہ آئے گی کہ حکمراں ٹی آر ایس کو پہلے سے زیادہ دیانتدارانہ طور پر حکمرانی کرنے کی فکر لاحق ہوگی ۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں وہ کوئی پہلو تہی نہیں کرسکے گی ۔ ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کی موجودگی سے ہی حکمراں طاقت کو اپنی سیاسی بقا کی فکر ستانے لگتی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے ضمنی انتخابی وعدے کئے تھے جن میں سے بیشتر وعدوں کو ہنوز پورا نہیں کیا گیا ۔ طلباء برادری کی حمایت سے تلنگانہ حاصل کرنے والی ٹی آر ایس نے طلباء کو ہی فراموش کردیا ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ٹی آر ایس حکومت فیصلہ کن طور پر سیاسی طاقت میں مضبوطی لانے کے لیے کچھ اچھے کام کرسکے گی یا نہیں ۔ ریونت ریڈی نے کانگریس میں شمولیت کے لیے جو جواز پیش کیا ہے وہ یہ ہیکہ کانگریس نے ہی تلنگانہ دیا ہے اور یہی پارٹی تلنگانہ کو ترقی دے سکتی ہے ۔ اسی فکر کے ساتھ انہوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ اب کانگریس ہی تلنگانہ کے شہیدوں کی اصل آرزوں کو پورا کرے گی ۔ توقع کی جاتی ہے کہ کانگریس اپنے نئے سیاسی مہمان کے ذریعہ تلنگانہ میں عوام کے خوابوں کی تعبیر میں اہم رول ادا کرے گی۔